بلوچستان وفاقی ملازمتوں میں ایک بار پھرمحرومی کا شکار

Screenshot of FPSC website

کمپیوٹر سے اتاری گئی ایک تصویر جس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ پہ نوکریوں کے اعلانیہ میں بلوچستان کیلئے کوئی اسامیاں نہیں رکھی گئیں

یہ پوسٹ عدنان عامر کے دی بلوچستان پوائنٹ کیلئے لکھے گئے مضمون کی ایک ترمیم شدہ شکل ہے۔ اسے گلوبل وائسزپرایک مواد بانٹنے کے معاہدے کے تحت دوبارہ چھاپا جا رہا ہے۔

[اس مضمون میں موجود تمام لنکس انگریزی زبان کے ویب پیجز تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔]

فیڈرل پبلک سروس کمیشن ( ایف پی ایس سی ) کی طرف سے خالی وفاقی ملازمتوں کے کوٹے کا تفصیلی مطالعہ بلوچستان کو ملازمتوں کے کوٹے سے منظم محرومی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پاکستان میں وفاقی حکومت کی ملازمتیں ملک کے چاروں صوبوں اور وفاق کے زیرِانتظام علاقوں میں آبادی کی بنیاد پروضع کردہ نظام کے تحت تقسیم کی جاتی ہیں۔ ملک کے وسیح لیکن سب سے کم ترقی یافتہ اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کیلئے وفاقی ملازمتوں میں حصّہ 6 فیصد ہے۔

بلوچستان پوائنٹ نے چھان بین کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی اس مفلس صوبے کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی جانب سے اس کا وفاقی حکم کے تحت تہ کردہ حصّہ مل رہا ہے۔ ایف پی اس سی ایک خود مختار ادارہ ہے جس کے ذمے آسامیوں کے اعلانات اور کوٹہ کی نگرانی کا کام ہے۔

اعداد میں گڑبڑ

2 اگست  کو ایف پی ایس سی نے وفاق کے زیِرانتظام مختلف اداروں اور تنظیموں میں 156 آسامیوں کے بارے میں اعلان کیا۔ ان نوکریوں میں تقریبآ تمام علاقوں کو انکے کوٹہ کے مطابق حصّے مختص کیے گئے۔ پنجاب کو50 فیصد ملنا چاہیے تھا، اسے 53.2 فیصد مختص کیا گیا، سندھ کا حصّہ 19 فیصد بنتا تھا، اسے 18فیصد ملا، خیبر پختونخوا کو 11 فیصد ملازمتیں ملنی چاہیے تھیں، اسے 9.6 فیصد ملازمتیں نصیب ہوئیں. بلوچستان کو 6 فیصد حصّہ ملنا چاہیے تھا، لیکن اسے صرف نصف آلاٹ کیا گیا یعنی3 فیصد۔

نیچے دیے گئے ٹیبل میں ان ملازمتوں کا تفصیلی جائزہ صوبائی حصّے کے ساتھ درج کیا گیا ہے:

علاقے میرٹ پنجاب سندھ (شہری) سندھ (دیہی) خیبر پختونخوا گلگت بلتستان – فاٹا بلوچستان آزاد جموں کشمیر کل
نوکریاں 17 83 12 16 15 5 5 3 156
کل میں حصّہ (فیصد) 10.9% 53.2% 7.7% 10.3% 9.6% 3.2% 3.2% 1.9% 100%
وفاقی مختص کوٹہ 7.5% 50% 7.6% 11.4% 11.5% 4% 6% 2% 100%

اہم خالی آسامیوں سے محروم

اہم خالی آسامیوں، مثلا فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آی اے ) کے انسپکٹرکی ملازمتوں ، کو بانٹتے ہوۓ بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

انسپکٹر ایف آئی اے کی 61 خالی اسامیوں میں سے ایک بھی بلوچستان کے حصّے میں نہیں آئی۔ یہاں تک کے آزاد جموں اور کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اس عہدے میں حصّہ ملا مگر بلوچستان کو نہیں۔

یہ طاقتور انسپکٹر، دیگر فرائض کے ہمراہ، ہوائی اڈوں پر قائم ایف آئی اے کے امیگریشن چیک پوائنٹس پر شفٹ انچارج بھی لگ سکتے ہیں۔

بلوچستان کے لوگوں نے اکثر ہوائی اڈے امیگریشن کاؤنٹرز پہ ہونے والے سلوک کے بارے میں شکایت کی ہے۔

حاجی بدرالدین، جو کہ ایک اکثر بین الاقوامی سفر کرنے والے مسافر ہیں، نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا:

We face discrimination at airport check points because the FIA and ANF personnel consider us aliens

ہمیں ہوائی اڈوں کے  ناکوں پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایف آئی اے اور اے این ایف (اینٹی نارکوٹکس فورس) کے عہدیدار ہمیں غیر ملکی تصور کرتے ہیں۔

بدرالدین نے مزید کہا:

FIA officers form Balochistan, if there are any, should be posted on Airport check points of Quetta and Karachi from where we normally travel

اگر بلوچستان سے کوئی ایف آئی اے افسران ہیں تو انہیں کوئٹہ اور کراچی میں جہاں سے ہم عام طور پر سفر کرتے ہیں وہاں ہوائی اڈوں کے ناکوں پہ فائض کیا جانا چاہیے۔

دی بلوچستان پوائنٹ کے بار بار رابطہ کرنے کی کوششوں کے باوجود ایف پی ایس سی کے سیکرٹری بلوچستان میں کوٹہ کی خلاف ورزی کے متعلق بیان دینے کیلئے دستیاب نہیں تھے۔

ایف پی ایس سی کی جانب سے موجودہ خالی آسامیوں کا اعلان وہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب بلوچستان کے کوٹہ کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ 27 جولائی
کو وفاقی ادارے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے بھی اپنی 45 خالی آسامیوں میں بلوچستان کے کوٹہ کی خلاف ورزی کی۔

خلاف ورزیاں مسلسل نظر انداز

بی پی ایس (بیسک پے سکیل ) 17 یعنی گریڈ 17 کی 47 نوکریوں میں سے ایک بھی بلوچستان کو نہیں دی گئی۔ بلوچستان کی شہری سماجی تحریکوں کے کوٹہ قوانین کی خلاف ورزی پر احتجاج کا علم ہونے کے بعد بلوچستان کے چیف سیکرٹری نے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کو اس کی بھرتیوں کا سلسلہ روک دینے کو کہا۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا:

In my capacity as a member of different Senate standing committees, I have put up questions with PIA, HEC, CDA, OGDCL, SNGPL, SSGC and other [federal] departments and asked them to explain how they are fulfilling 6 percent quota of Balochistan

مختلف سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کا ممبر ہونے کی حیثیت سے میں نے پی آئی اے، ایچ ای سی، سی ڈی اے، او جی ڈی سی ایل، ایس این جی پی ایل، ایس ایس جی سی اور دوسرے (وفاقی) اداروں کے سامنے یہ سوال رکھے اور ان سے پوچھا کہ وہ یہ سمجھائیں کہ وہ بلوچستان کا 6 فیصد کوٹہ کیسے نبھا رہے ہیں۔

سینیٹر جمالدینی نے مزید انکشاف کیا کے دوسرے صوبوں کے لوگ بلوچستان کی شہریت کے جعلی دستاویز بنوا کر بلوچستان کے بچے کچے کوٹہ پہ نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں۔

جمالدینی نے دعویُ کیا

DMG officers serving as Deputy Commissioners and Assistant Commissioners have issued domicile certificates to their relatives, in huge numbers, which are used to deprive people of Balochistan form their quota in jobs

ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے افسران جو کہ بطور ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کام کر رہے ہیں انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بھاری تعداد میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جنکی بنیاد پہ بلوچستان کے لوگوں کو نوکریوں میں کوٹہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔

پچھلے برس وفاقی حکومت نے بلوچستان کیلئے مختص 3692 وفاقی ملازمتوں پر بھرتیوں کے سلسلے کا آغاز کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت کی اس چال کو بلوچستان کی عوام نے بھاری تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.