پاکستان: ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش, ایک ڈیجیٹل بحران منتظر

Image by Elchinator from Pixabay. Used under a Pixabay License.

تصویر بشکریہ ایلچینٹر بذریعہ پکسابے۔ پکسابے کے لائسنس کے تحت استعمال کی جا رہی ہے۔

ملک میں جاری سیاسی بحران کے دوران پاکستانیوں کو حال ہی میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں شدید خلل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ انٹرنیٹ کی طویل بندش رہی جہ کہ 9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی گرفتاری کے بعد عمل میں لائی گئی۔ انٹرنیٹ خدمات اچانک معطل کر دی گئیں اور یہ تعطل 4 روز تک جاری رہا، جس سے ملک کے اندر معلومات اور مواصلات کی فراہمی و ترسیل میں تکلیف دہ حد تک رکاوٹ پیدا ہوئی۔

اس پابندی نے نہ صرف فوڈپانڈا، اوبر اور کریم جیسے مقبول آن لائن پلیٹ فارمز کو متاثر کیا بلکہ سوشل میڈیا کے قد آور نیٹ ورکس جیسے ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب تک رسائی کو جزوی طور پر روک دیا۔ اس پابندی نے نا صرف انفرادی صارفین بلکہ کارپوریٹ صارفین کو بھی متاثر کیا جنہیں انٹرنیٹ خدمات میں خلل کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ چونکہ پاکستانی انٹرنیٹ سروسز کی بحالی کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبریں گردش کنے لگیں اور انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے حوالے سے متضاد معلومات فراہم ہوتی رہی ہیں۔

ایک شکی ٹویٹر صارف نے 15 مئی کو اپنے خیالات کا اظہار کیا کیا:

پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بحال تو ہو گیا ہے لیکن کب تک کے لئے؟

امید ہی کی جا سکتی ہے کہ حکومت دوبارہ پلگ نہ کھینچ لے، اور ہم 23 مئی کو اندھیرے میں ہی رہیں کہ جس دن عدالت نے انتخابات کے دن کے حوالہ سے ایک مقدمہ کی سنوائی کرنی ہے۔

اس سے قبل دی ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے سوشل میڈیا پر ایک ایسا ہی پیغام شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹرنیٹ مکمل طور پر بحال ہو گیا ہے 13 مئی کو پابندی ہٹا دی گئی تھی۔

اس ہفتے پاکستان میں ہونے والے کریک ڈاؤن پر مغرب (بشمول امریکہ) کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے انٹرنیٹ کی طویل بندش پر تنقید کے نتیجہ میں ایسا لگتا ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی آخر کار اٹھائے جانے کے مرحلے میں ہے۔ یہ اس تاریک ہفتہ کی ایک چھوٹی سی پر امید خبر ہے۔

ان سب باتوں اور دعوں کے باوجود انٹرنیٹ کی غیر اعلانیہ بندش جاری رہی۔ صحافی شاہ میر بلوچ نے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ جب عمران خان فرید زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے اس لئے آف لائن ہو گئے کہ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا۔

عمران خان نے آرمی چیف پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی گرفتاری اور پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے “ذاتی رنجش” نکال رہے ہیں۔ خان نے کہا کہ “فوج اور آئی ایس آئی قانون سے بالاتر ہیں۔” بتایا جاتا ہے کہ فرید زکریا کے ساتھ عمران خان کا انٹرویو روک دیا گیا اور اس کا انٹرنیٹ بند کر دیا گیا۔

شہریوں کی جانب سے مایوسی اور بے یقینی کا اظہار

پاکستان میں سوشل میڈیا سائٹس کی بندش کی وجہ سے شہریوں میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے  خاص کر وہ جو معلومات تک رسائی اور کاروباری معاملات کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔ پابندی کی وجہ سے جو رکاوٹ پیدا ہوئی اس نے آن لائن رابطے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ سوشل میڈیا جیسے آن لائن پلیٹ فارم شہریوں کے لیے اپنی رائے کا اظہار کرنے، حکام کو جوابدہ ٹھہرانے اور عوامی گفتگو میں حصہ لینے کے لیے ایک اہم آلات بن چکے ہیں۔ اس پابندی نہ صرف شہریوں کی اپنے اظہار کی صلاحیت کو محدود کر دیا بلکہ معلومات کا خلا بھی پیدا کیا، جس سے وہ اپڈیٹس اور معلومات سے بے خبر رہتے ہیں۔

ایک شہری نے ٹویٹ کیا:

برائے مہربانی پاکستان کا انٹرنیٹ بحال کر دیں تاکہ میں اپنا کام کر سکوں۔ ہر کوئی سوشل میڈیا کا استعمال صرف شغل یا سیاست کے لئے نہیں کرتا۔ ہم میں سے بیشتر کی نوکریاں اور کام اس سے جڑے ہیں اگر حکومت کو اس بات کا احساس ہے تو انٹرنیٹ بحال کرے۔

ایک مشہور ڈیجیٹل رائٹس ڈیفنڈر حیا کامران نے اپنے خدشات کا اظہار کیا جس دن عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا اور انٹرنیٹ بلاک کر دیا گیا تھا، اس شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھرپور انداز میں جاری ہے:

سیاسی عدم استحکام کے وقت انٹرنیٹ سروسز میں خلل ڈالنا خوفزدہ اور کھوئے ہوئے اختیار کی علامت ہے۔ معلومات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی ہر شخص کے بنیادی حقوق ہیں، اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن (مکمل یا جزوی) ان حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

آزادی اظہار پر پابندیاں

مختلف نیوز رومز اور میڈیا ہاؤسز نے انٹرنیٹ کی بندش کے بارے میں رپورٹ کیا، جس میں اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی پر نمایاں اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ پابندیوں کو انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں، ملکی اور بین الاقوامی برادریوں اور دنیا بھر میں متعلقہ افراد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

#پاکستان: فولکر تورک نے سیکیورٹی فورسز سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور انٹرنیٹ کی پابندیاں ختم کرنے  کی اپیل کی ہے۔ آزادی اظہار، پرامن احتجاج اور قانون کی حکمرانی سیاسی تنازعات کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جس میں غیر متناسب طاقت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مظاہرین تشدد سے باز رہیں۔

اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی بنیادی حقوق ہیں جنہیں کسی بھی جمہوری معاشرے میں برقرار رکھا جانا چاہیے۔ انٹرنیٹ کی بندش نہ صرف ان حقوق پر قدغن لگاتی ہے  بلکہ ملک کی ترقی کو بھی روکتی ہے۔

جی این آئی  سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں کے بعد پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے حکم پر انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں رکاوٹوں پر اظہار تشویش کرتی ہے۔ اس طرح کی رکاوٹیں افراد کی حفاظت، درست معلومات تک رسائی اور ازادیِ اظہار کو کمزور کرنے کے لیے اہم خطرات کا باعث بنتی ہیں۔

ایک کمیونٹی پر مبنی خبروں کے ادارے پاک ووٹس نے ٹویٹ کیا:

پاکستان میں ٹویٹر اور فیس بک پر ربطہ کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کچھ صارفین نے وٹس ایپ پر بی محدود رسائی کے حوالہ سے شکائت کی ہے۔

موجودہ دور میں دنیا جس طرح سے آپس میں جڑی ہوئی ہے، اس طرح کی رکاوٹیں شہریوں اور بین الاقوامی برادری دونوں کے لیے دور رس اثرات مرتب کرتی ہیں۔

اوپن آبزرویٹری کے مطابق تمام بڑے شہروں میں صارفین کو ٹیلی گرام اور سگنل ایپ استعمال کرنے میں دشواری کا سامنا ہے جبکہ کراچی میں بھی انٹرنیٹ صارفین کو میسنجر ایپ استعمال کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، ہو سکتا ہے یہ سب انٹرنیٹ تھروٹلنگ یا انٹرنیٹ کی پابندی کی وجہ سے ہو۔

پاکستان میں وی پی این کے استعمال میں اضافہ

پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کیے جانے کے جواب میں، شہریوں کی جانب اپنے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) کے استعمال میں اضافہ ہوا، جو کہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ حدود سے بچنے اور محدود معلومات تک رسائی کا ایک مقبول ذریعہ بن گیا ہے، جس سے لوگوں کو اپنے آن لائن کنکشن رکھنے  اور اپنی آزادی اظہار کا استعمال کرنے میں مدد ملتی ہے۔

چونکہ ملک وی پی ان کے استعمال میں اضافے سے نمٹ رہا ہے، لہذا انٹرنیٹ قانون سازی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی اہمیت پر زور دیا جانا چاہیے، جو کہ قومی سلامتی کے خدشات اور شہریوں کے معلومات تک آزادانہ رسائی کے حق کے درمیان صحیح توازن قائم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔  ہے۔ اظہار آن لائن.

معلومات تک غیر محدود رسائی کے لیے دنیا بھر میں کام کرنے والی پراکسی سروس Hoxx VPN نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی صورتحال کے بعد تمام پاکستانیوں کے لیے اپنی مفت پریمیم وی پی این خدمات کا اعلان کیا، اور ٹویٹ کیا:

پاکستان سے ہمارے تمام صارفیون کو بغیر کسی چارج کے پریمیم میں اپ گریڈ کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے شامل ہونے والے ہر فرد کو بھی اپ گریڈ کیا جائے گا اور 20 مئی 2023 تک مفت وی پی این سروس استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان، اس سروس کو استعمال کریں اپنے تمام فیملی ممبرز اور دوستوں کو مطلع کریں۔

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی، ایک ایسی تنظیم جو پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا لٹریسی اور انٹرنیٹ ریگولیشن پر کام کرتی ہے تاکہ لوگوں کو یہ آگاہ کیا جا سکے کہ وہ کیسے اپنی آن لائن سرگرمیں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

ایک محفوظ وی پی ان کے ساتھ انٹرنیٹ بند ہونے کے دوران اپنی آن لائن موجودگی کو یقینی بنائیں!

ای کامرس کے لیے ایک بڑھتا ہوا معاشی بحران

پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش نے ملک بھر میں کاروبار کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ فوڈپانڈا، اوبر، اور کریم جیسے آن لائن پلیٹ فارمز ناقابل رسائی ہو گئے ہیں، جس سے کھانے کی ترسیل اور سواری کے آپریشن میں خلل پڑا۔  اس رکاوٹ کے ماہرین تعلیم، محققین اور پیشہ ور افراد پر بھی شدید اثرات مرتب ہوئے۔

اس پابندی سے ای کامرس پلیٹ فارمز کو بھی نقصان پہنچا ہے، کاروباری لین دین کرنے میں ناکامی کی وجہ سے فروخت میں کمی کا سامنا ہے۔ سپلائی چینز، لاجسٹکس اور مواصلاتی چینلز میں خلل پڑا، جس سے پیداواری صلاحیت اور فیصلہ سازی کے عمل میں رکاوٹدیکھنے میں آئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی عدم موجودگی نے کاروبار کی مارکیٹنگ اور صارفین تک رسائی کوششیں محدود کر دی ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے، جو کہ پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں، شدید متاثر ہوئے ہیں، انہیں مالی نقصانات اور اچانک آنے والی رکاوٹ کا حل تیار کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان میں 3 لاکھ  سے زیادہ لوگ جن کا کام انٹرنیٹ ہر مکمل طور پر منحصر ہے اپنی آج کی یومیہ اجرت سے محروم ہو جائیں گے۔ ان مٰن فری لانسرز، اوبر ڈرائیورز، ڈیلیوری والے افراد، بائیکیا اور بہت سے لوگ شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے خاندان کا انحصار اس یومیہ اجرت پر ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے دوران پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش ملک میں جمہوریت، آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کے بارے میں جہاں  سنگین خدشات کو جنم دیا ہےوہیں یہ ایک شفاف اور جامع انٹرنیٹ گورننس فریم ورک کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے جو شہریوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا تک بلا تعطل رسائی کو یقینی بنائے۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.