سولہ اگست ٢٠١٢ کو اسلحہ بردار دہشت گردوں نے ایک بس کو مانسہرہ کے علاقے میں روکا، اس میں سے ٢٠ شیعہ مسلمانوں کو اتارا اور انھیں گولی مار دی. یہ پچھلے چھ مہینوں میں اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے۔
یہ بس پاکستان کے پہاڑی علاقے گلگت ، جو کہ ایک مشہور سیاحت کا مقام ہے، کی طرف جا رہی تھی۔
انہوں نے تین گاڑیوں کو روکا، ان کی تلاشی لی، لوگوں کو تین پانچ کر کے چنا، اور پھر ان لوگوں کو گولی مار دی۔ وہ سب لوگ شیعہ برادری سے تھے.
پاکستانی کلعدم تحریک “تحریکِ طالبان پاکستان” نے اس سانحے کی ذمہ داری قبول کر لے ہے. ۲۸ فروری کو اسی طرح کے ایک اور سانحہ میں آرمی کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے ١٨ شیعوں کو بسوں میں سے اتار کر مارا تھا. اپریل میں ایک سنّی گروہ نے ٩ شیعہ مسلمانوں کو بیدردی سے چلاس نامی شہر میں قتل کیا تھا.
پاکستان میں شوشل میڈیا نے اس سانحے کا بہت تیزی سے نوٹس لیا اور علی عباس زیدی اُن پہلے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اسے رپورٹ کیا:
@علی عباس زیدی: مسافروں کو بس سے نکالا گیا اور گولی مار دی گی. یہ غالباً #شیعہ نسل کشی ہے ۔
رمضان میں ہونے والے اس سانحے پر درویش نے گہرے رنج کا اظہار کیا:
@درویش: ٢٠ جنازے، ٢٠ خاندان وہ بھی٢٧ رمضان کو، عید میں تین دن باقی ہیں. ذرا عورتوں، بچوں، اور والدین کی حالت کا سوچیے. #ShiaGenocide #گلگت
مزید خیالات
@شیراز حیدر: ایسا واقعہ چار مہینوں میں چوتھی بار ہوا ہے . پہلا کوہستان میں ، دوسرا چلاس میں ، تیسرا گلگت میں اور آخری آج ناران میں. چیف جسٹس کیا آپ جاگ رہے ہو؟ #shiakilling
@یَڑوُن١ :روزانہ یہاں شیعہ مارے جارہے ہیں جبکہ میڈیا اور معاشرہ خاموش ہے۔
@زاہیب نبیل: میں بہت پرزور انداز میں ۲۰ شیعہ افراد کے قتل کی مذمت کرتا ہوں. ہمیں اپنے نبی (ص) کا پیغام ِامن ہر جگہ پھیلانا چاہیے
@Aushpaz: ذرا سوچیے! اگر قتل کا پہلا واقعہ عدل و انصاف کے ذریعے حل ہوتا تو آج گلگت میں سوگ نہ منایا جا رہا ہوتا.
@انجم کیانی: ہم ایسے واقعات کو شیعہ قتل عام کہیں یا سننی قتل عام۔ حقیقتاً ، یہ سارے مسلمانوں کا قتل عام ہے۔
@javhb: ری ٹوئیٹ (RT) انجم کیانی: جن ١٦ لوگوں کا قتل کیا گیا ہے وہ نہ شیعہ تھے نہ سنّی تھے وہ مسلمان اور پاکستانی تھے۔