پشتون لانگ مارچ کا سالوں کی نسلی ہدف بندی کے بعد انصاف کا مطالبہ

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مضاہرین نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرتے ہوئے۔ تصویر برائے انعم لودی۔ اجازت سے استعمال کی گئی ہے۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر ایک ہجوم، “نقیب تیرے خون سے، انقلاب آئے گا!” کے نعرے لگا رہا ہے۔ فاٹا کے قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دیگر حصوں سے پشتون ایک ہفتے سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر دھرنا دے رہے ہیں۔

دکاندار،نقیب اللہ محسود کے غیر عدلیہ قتل سے شروع ہونے والے مظاہرے پختونوں کو درپیش مسائل کی آواز بن گئے۔

#پشتون لونگ مارچ #اسلام آباد

کتنے اور جب تک ہم واقعی میں تبدیلی دیکھیں گے

خیبر پختونخوا سے خواتین #پشتون لونگ مارچ میں حصہ لینے کے لیے روانہ ہیں۔ہماری درخواست ہے کہ پورے پاکستان سے خواتین آج شام ۵ بجے اسلام آباد پریس کلب میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔

پشتون کون ہیں؟

پشتون(پٹھان) وہ نسل ہیں جو زیادہ تر پاکستان اور افغانستان میں رہتے ہیں۔ وہ پشتو اور کئی اور بولیاں بولتے ہیں۔ وہ روایتی لوگ ہوتے ہیں، جن کی چند مخصوص روایات ہیں جو انہیں ذاتی اور سماجی زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہیں۔ پاکستان میں فی الحال 300 لاکھ ( پاکستان کی کل آبادی کا 15 فیصد) مقیم ہیں اور افغانستان میں انکی کل تعداد  325 لاکھ ہے جو کہ انکی کل آبادی کا 40-60 فیصد حصہ ہے۔

پشتون احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

پاکستان میں کئی پشتونوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان سے آنے والے  پشتون پناہ گزیروں کو بدترین کیمپوں میں غربت سے رہنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فاٹا میں رہنے والے مقامی پشتونوں کو وزیرستان میں جاری جنگ  فوجی آپریشنز کی وجہ سے اپنے ملک میں ہو کے اندراونی طور پر بےگھر ہو کر کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے۔  ان لوگوں نے کئی سالوں تک دہشت گردی اور فوجی آپریشن کا سامنا کیا ہے اور ہزاروں خاندانوں نے اپنے کاروبار اور معمول کی زندگی کھو دی ہے۔

جب جنوری میں،  27 سالہ پشتون دکاندار، نقیب اللہ محسود کو کراچی میں  قتل کیا گیا اور  دکھایا گیا کہ اُسکا  تعلق دہشت گرد تنظیم سے ہے تو ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوئے۔ کراچی میں غیر عدلیہ قتل اور جھوٹے پولیس مقابلے(جب مقامی لوگوں کو قتل کرکے سیکورٹی ایجنسیوں کی ارتقاء کے لیے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے) عام معمول ہیں۔ 2017 میں پاکستان میں 65 غیر عدلیہ قتل کا شک ہوا، اُن میں سے ۲۰ کی تحقیقات کی گئیں۔ان میں سے 6 مقدمات میں پولیس افسران کو اپنی طاقت کاغلط استعمال کرتے پایا۔

پختونخوا، فاٹا اور پاکستان کے دیگر حصوں میں  زبردستی لاپتہ ہونے کے دور کا ختمہ، بارودی سرنگوں کا خاتمہ، #نقیب کے لیے انصاف اور فاٹا کے تباہ ہو چکے بنیادی ڈھانچے کی بحالی؛ #پختون اسلام آباد دھرنے کی مانگیں ہیں۔

نقیب کے قتل اور باقی لوگوں کے قتل میں فرق یہ ہے کہ نقیب  قتل نے ایک تحریک کا آغاز کیا جو پشتون نوجوان چلا رہے ہیں، جو  محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سزا بھگتتے آئے ہیں، نسل کی وجہ سے امتیازی سلوک برداشت کرتے آئے ہیں، اور سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوتے آئے ہیں۔

پشتون مظاہرے کی مانگیں۔ تصویر: انعم لودی۔

یکم فروری کو منعقد کردہ پشتون دھرنے کے امیدواروں نے اپنی جگہ سے ہلنے سے انکار کردیا جب تک حکومت اُنکے پانچ مطالبات نہیں مانتی۔ مطالبات تھے:

۱. جن پولیس اہلکاروں نے نقیب محسود کا قتل کیا، اُنہیں سزائیں دی جائیں۔

۲. غیر عدلیہ قتل کے لئے عدالتی کمشن بنائی جائے، جس کی نگرانی چیف جسٹس آف پاکستان کریں۔

۳. تمام مسنگ پرسنز(لاپتہ افراد) کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

۴. فاٹا میں بارودی سرنگیں ہٹائیں جائیں۔

۵.  فاٹا میں ہر دہشت گرد حملے کے نافذ ہونے والی کرفیو پالیسی کو ختم کیا جائے۔

گلوبل وائسز(گی وی) اسلامآباد دھرنے میں موجود تھے اور کچھ مظاہرین سے بات کی۔

طالب علم، علی حیدر نے کہا:

 اُمید ہے کہ ہم وہ حاصل کرلیں  جسکے لیے  یہاں اکھٹا  ہیں۔ہمارے پاس  نہ معیاری تعلیم ہے اور نہ اہل اساتذہ، اور روز مرہ کی مسائل کی وجہ سے ہے وقت پر اسکول نہیں پہنچ پاتے۔

فروری 8، حیدر اور کئی اور طلباء تبدیلی کی اُمید میں ایک ہفتے سے اپنی پڑھائی اور نوکریاں قربان كرکے دھرنے میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ دھرنے نوجوان پشتونوں کے ایک سماجی میڈیا کے گروہ نے #پشتون لونگ مارچ کے ساتھ شروع کیے۔ اس لونگ مارچ میں 50 سے زائد خواتین اور قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آئے 2000 پشتون ہر روز  شامل ہوتے ہیں۔

قومی میڈیا نے اس  مظاہرے کو وسیع پیمانے پر نظر انداز کیا جب تک نجی رابطے کی ویب سائٹس اور بین الاقوامی نے اسے رپورٹ نہ کیا تھا۔

ہزاروں لوگ #پشتون لونگ مارچ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہر عمر کے مرد اور خواتین یہاں موجود ہیں۔ یہ بے مثال ہے۔

انسانی حقوق کمیشن نے حکومتِ پاکستان سے مظاہروں کا نوٹس لینے اور مطالبات سننے کا حکم دیا۔ پاکستانی وزیرِ اعظم نے مظاہرین کو یقین دھانی کرائی کہ نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو سزا ملے گی۔

”حکومت نے مظاہروں کو اتنی توجہ نہیں دی“

دھرنے کے دوران گلوبل وائسز نے  عوامی نیشنل پارٹی کی سینٹر وائس پریذیڈنٹ سے بات کی، جنہوں نے کہا:

حکومت نے مظاہروں کو اتنی توجہ نہیں دی۔ وزیرِ اعظم کو مظاہروں کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ میڈیا پر نگرانی رکھی گئی اور اس مظاہرے پر رپورٹنگ کرنے سے روکا گیا۔ شروعات میں مظاہرہ بہت بڑا تھا۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وطن کارڈ( شناختی کارڈ) ختم کیے جائیں جو دراصل 2010 میں سیلاب متاثرین کو معاشی امداد کے حصول کے لیے دیئے گئے تھے۔ یہ کارڈ در حقیقت فاٹا کے لوگوں کے لیے پاکستان کے دیگر علاقوں میں سفر کرنے کے لیے پاسپورٹ ہے۔  اب اس کارڈ کی وجہ سے نسلی فرق کی بنا پر پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ بشریٰ گوہر نے کہا:

 جب بھی کوئی دہشتگردی  واقع ہوتا ہے تو پوری برادری کو اسکی سزا ملتی ہے۔ وطن کارڈ کو ختم کرنا ہوگا؛ اگر یہ انکے لیے صحیح  تو وزیرِ اعظم کے لیے کیوں نہیں؟

سماجی کارکن، گلالئ اسماعیل نے آٹھویں روز مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے صوبے میں ترقیاتی کام میں کمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا، “پنجاب میں اورنج لائن اور خیبر پختونخوا میں لینڈ مائنز(بارودی سرنگیں)!”۔ انہوں نے مزید کہا کہ پختونوں کی جانیں اس لیے سستی لگتی ہیں کیونکہ حکومت اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم کو ہر روز نظر انداز کرتی ہے۔

خواتین مظاہرے میں حصّہ لیتے ہوئے۔ تصویر برائے انعم لودی۔ اجازت سے استعمال کی گئی ہے۔

دھرنے کے دوران اسماعیل نے کہا:

خواتین نے آج یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی چوڑیوں کے ساتھ اتنی ہی مضبوط ہیں جتنے مرد ہتھیاروں کے ساتھ۔ عدم تشدد کی طاقت کے ساتھ انہوں نے حلف اٹھایا ہے کہ انقلاب کو آگے لے کر جائیں گے۔

کافیوں کا ماننا ہے کہ حکومت کے نظر انداز کرنے اور نسل کشی کی وجُہ سے پشتون برادری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسماعیل نے مزید کہا:

 ان تنازیات کی وجہ سے پیدرسری نظام مضبوط ہے اور خواتین متاثر ہوئی ہیں۔ قبائلی نظام نام پر خواتین کو بنیادی حقوق سے دور کیا گیا ہے۔ 

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں جیسے کے عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں نے دھرنے میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ خطبات میں مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومتی انتظامیہ پشتونوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر رہی ہے کیونکہ 2012 میں اپنی حکومت کی شروعات سے یہ حکومت فاٹا ریفارم بل میں تاخیر کر رہی تھی۔ آخر کار جنوری میں قومی اسمبلی نے یہ بل پاس کیا جس میں قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی اصلاحات کی طرف ایک قدم کے طور پر لیا گیا۔

پشتون برادری نے خود کو ہمیشہ لوگوں کے مذاق کا  شکار پایا ہے جس کی  وجہ سے پاکستان میں مختلف پیشوں میں  اُنہیں مایوسی اور کمزوری کا احساس ہوا ہے۔ یہ ریلی دوسروں سے الگ اس لیے ہے کیونکہ پشتون اپنے حقوق کے لیے پہلی مرتبہ اتنی بری تعداد میں درالحکومت میں اکھٹا ہوئے ہیں۔ انہوں نے  تو سڑکیں بلاک کی ہیں اور  نہ کسی کو نسل کشی کا نشانہ بنایا ہے، بس انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ریلی کو کوئی مذہبی حوصلہ افزائی نہیں مل رہی بلکہ نسلی حوصلہ افزائی مل رہی ہے۔ اور اُمید ہے کہ پاکستان ایسا ملک بنے  جہاں ہر کوئی نسلی فرق کے بغیر ایک دوسرے کا ساتھ دے۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.