یہ مضمون جین کارسٹنینس نے پی آر آئی ڈاٹ آرگ کے لئے تحریر کیا جو کہ 10 جون 2016 کو چھپا۔ اس مضمون کو مواد کی شراکت کے معاہدے کے تحت تحریر کیا جا رہا ہے۔
رمضان کی پہلی رات کو ایتھنز کی پیریوس پورٹ کے خیمہ کیمپ میں مقیم افراد اپنا روزہ افطار کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے۔ جیسے ہی سورج ان یونانی جیزیروں کو جاتی مسافر بردار کشتیوں کی اوٹ میں ڈوبتا ہے سینکڑوں تھکے ماندے پناہ گزین ایک پارکنگ ایریا میں روزہ افتار کرتے ہیں۔ ان سب نے صح چار بجے سے نہ تو کچھ کھایا اور نہ ہی پیا۔
یونانی حکومت تو پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود پیریوس کے کیمپ میں حالات انتہائی خراب ہیں۔
سویڈن کی ایک این جی او کی رکن ہیڈا گریو کا کہنا ہے کہ رمضان میں یہ لوگ مزید اداس ہو رہے ہیں جو کہ پہلے ہی اپنی حالت زار سے تنگ ہیں۔ نہ وہ کچھ کھا سکتے ہیں، نہ وہ کچھ پی سکتے ہیں وہ دن بھر گرمی میں اپنے خیمہ میں بیٹھے رہتے ہیں، یہ بیک وقت روزہ اور انتظار برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ اور انتظار بھی وہ جو بہت طویل ہے۔
کیمپ کے ایک خاموش کونے میں حلب سے تعلق رکھنے والی چار بچوں کی نوجوان ماں عمل حرہ بھی رہتی ہیں۔ ان کے نام کا انگریزی میں مطلب ہے امید۔ اور ان کا کہنا ہے کہ “مجھے بہت زیادہ امید ہے، لیکن مجھے اس کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط رہنا پڑتا ہے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے۔” عمل اپنے چہرے پر مثبت تاثرات رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کی آنکھیں اداس معلوم ہو رہی تھیں۔ عمل نے کہا کہ رمضان اس کے لئے اس کے گھر کی یادیں اور اداسی لے کر آیا ہے۔ انہوں نے کہا “میں رمضان میں حلب جانا چاہتی ہوں جہاں میں کھانا بنا سکوں، جہاں ٹھنڈہ پانی میسر ہو جو ایک اچھی جگہ ہو اس کیمپ کے جیسی نہیں۔ جہاں ہمیں سنگترے کے علاوہ بھی پھل میسر ہوں، ہر روز ایک سا کھانا کھا کر انسان تنگ بھی تو آ جاتا ہے۔”
جب میں نے اسے کہا کہ میں سمجھ سکتی ہوں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ رمضان سال کا بہت اہم موقع ہوتا ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر منایا جاتا ہے خاص پکوان بنائے جاتے ہیں تو عمل نے کہا کہ “ہاں، لیکن میں کھل کر اپنی حالت بیان بھی نہیں کرسکتی کیوں کہ میں بہت اداس ہوں اور مجھے میرا گھر یاد آ رہا ہے۔”
اگلے روز میں نے یونانی مسلمان خاتون آنا سٹامو اور ان کے خاوند نعیم ال غندور کی جانب سے افطار کے کھانے کی دعوت قبول کی۔ نعیم مصر میں پیدا ہوئے اور وہ مسلم ایسوسیئشن آف گریس کے صدر ہیں۔ ان کے فون میں موجود رمضان ایپ نے افطار کے وقت کا اعلان آذان کی ریکارڈنگ چلا کر کیا۔ کھانے کی میز پر مزاق میں بحث چل رہی تھی کہ میز پر پڑا سلاد یونانی ہے یا مصری۔
کھانے کے دوران آنا نے نعیم جو کہ یونانی بولتے ہیں کے لئے مترجم کا کردار ادا کیا۔ نعیم بھی ان ہزاروں مسلمانوں کے لیے اداس ہے کہ جو رمضان کا مہینہ کیمپ میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اسے خوشی ہے کہ یونان کے وزیرِ نقل مکانی یانس موزالس رمضان میں پناہ گزینوں کے لئے کافی کام کر رہے ہیں۔ نعیم کا کہنا تھا کہ یہ امر ان کا بھی حوصلہ بڑھاتا ہے۔
نعیمم نے خود 1967 میں اپنا دیس مصر چھوڑا تھا۔ یونان میں پناہ گزین بڑے برے حالات میں ہیں، لیکن نعیم کے بقول وہ کم از کم جنگ اور تشدد سے تو دور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا “یہاں یہ لوگ نسبتاً بہتر حالات میں ہیں، ہو سکتا ہے وہاں اب تک ان کے سروں پر بم گر چکے ہوتے اور یہ رمضان تو کیا کچھ بھی نہ منا سکتے۔”
نعیم کا کہنا ہے کہ رمضان کا اصل تحفہ تو یہی ہو گا کہ ان کے دیس میں جاری لڑائی رک جائے اور امن آ جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “میری خواہش ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل ہو سکے یورپ جنگ بندی میں کوئی کردار ادا کرے۔ کیونکہ سب سے اہم کام اس وقت جنگ کا بند ہونا ہی ہے۔ یہ سب واپس گھر جانا چاہتے ہیں۔ ہماری سچے دل سے دعا ہے کہ یہ اپنے گھر واپس جا سکیں کہ جہاں امن اور سکون ان کا منتظر ہو۔”
وقت تحریر میں کافی دیر تک پیریوس کے کیمپ میں مقیم عمل کے بارے میں سوچتی رہی۔ اپمنے وقار کو ایسے مجروح ہوتے دیکھنا آسان کام نہیں ہوتا اور خاص کر کہ تہوار کے دنوں میں۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ کاش میں اس کی افطاری کے لئے ٹھنڈا پانی اور حلب کے تازہ پھل لا سکتی۔