اسلام آباد،پاکستان کا خوبصورت دارلحکومت اس وقت اپنے ہی شہریوں کے ساتھ ایک عجیب تنازع میں گھر گیا ہے ،وہ شہری جو اسلام آباد کے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں ان میں سے اکثر افراد لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں ، چوکیدار ہیں ،شہری انتظامیہ ان افراد کو ان زمینوں سے ہٹانا چاہتی ہے جہاں ان کی جھونپڑیوں کی پوری آبادی قائم ہے جو کچھ دہائیوں سے ایک غیر قانونی بستی ہے ۔
جمعرات کو ہونے والا مظاہرہ پرتشدد صورتحال اختیار کرگیا جب پولیس نے آنسو گیس اورڈنڈوں کا استعمال کیا، پولیس کی کارروائی میں ایک چھ دن کا نومولود بچہ بھی آنسو گیس کی شیلنگ اور گھٹن سے ہلاک ہوا، جبکہ تین افراد زخمی ہوئے ۔
صحافی صدیق ہمایوں نے ایک رہائشی سے بات کی جس نے بتایا کہ نکالے جانے کی وارننگز کافی مہینوں سے دی جارہی ہیں.
ان کے مطابق حکومتی نمائندے ائے تھے ،تین مہینے پہلے اور کچی آبدی والوں سے بات کی تھی خآلی کرنے کئی لیکن انہون نے انکار کردیا ، تین دن کے مسلسل نوٹس کے باوجود بھی لوگوں نے خالی نہیں کیا.
لوگوں کا کہنا ہےکہ اگر سی ڈی اے کو یہ زمین خالی کروانی ہی تھی تو اس کچی آبدی میں رہنے والوں کے لیے کوئی متبادل جگہ فراہم کرنی چاہیے تھی، کیونکہ یہ پورے پورے خاندان ہیں اور ان کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہیں۔
سول سوسائٹی ان بدقسمت خاندانوں کے لیے اس وقت سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ، بےدخلی بند کر کے ساتھ ٹویٹ کررہی ہے
#CDA Operation against H-11 Katchi Abadi #Islamabad https://t.co/jFqqTCmjvX #StopEvictions @AWPIslamabad pic.twitter.com/NLmxwEIxts
— #StopEvictions (@KachiAbadis) July 22, 2015
(سی ڈی اے کا ایچ 11 کی کچی آبادی کے خلاف آپریشن)
کاروباری شخصیت زرلشت فیصل کا ٹویٹ کیا:
Haunting images #StopEvictions. Dignified repatriation of refugees is state's DUTY esp when they take money 4 it pic.twitter.com/o7ApnutMUP
— Zarlasht Faisal (@ZarlashtFaisal) July 31, 2015
(ڈرادینے والے مناظر ،بے دخلی بند کرو ، باعزت طریقے سے خاندانوں کی کسی اور مقام تک منتقلی ریاست کی زمہ داری ہے ۔)
اسامہ خلجی اسلام آباد کے سماجی سرگرمیوں کے کارکن فیس بک پر لکھتےہیں:
خوفناک ہے جس طرح سے غریبوں کے گھروں کو تباہ کیا جارہا ہے بغیر کسی متبادل آپشن کے حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے، اشرافیہ نے ایک بار پھر غربا پر یلغار کردی۔
مشہور بلاگر اور صحافی رضا رومی نے سی ڈی اے کو منافق قرار دیتے ہوئے کہا؛
Hey CDA:The children’s library in #Islamabad has been occupied by a religious seminary 4 yrs. Would you evict those illegal occupants too?
— Raza Rumi (@Razarumi) July 30, 2015
(سی ڈی اے بچوں کی ایک لائبریی پر چارسال سے ایک مدرسے نے قبضہ کررکھاہے، ان کو کیوں نہیں بے دخل کیا جاتا ہے ۔)
مرتضی سولنگی، ریڈیو پاکستان کے سربراہ نے بھی سی ڈی اے کی کارروائی کو دوغلے پن پر مبنی قرار دیا:
All farm houses in Zone-4 are illegal because the area was not meant for housing. Will CDA bulldoze them?
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) July 30, 2015
(زون 4 میں تمام فارم ہاوسز غیر قانونی ہیں، کیا سی ڈی اے انہیں بلڈوز کرے گی)
صحافی فہد دیشمکھ لکھتےہیں:
(ان سارے سیاستدانوں کا شکریہ جنہوں نے “روٹی کپڑا اور مکان” کا نعرہ لگا کر ووٹ لیے، اور اس بے دخلی کے لیے کچھ نہیں کیا)
Thanks to all the politicians who use “roti, kapra, makaan” slogan to get votes but do nothing #StopEvictions pic.twitter.com/5Ns8800Pl9
— Fahad Desmukh (@desmukh) July 31, 2015
“@desmukh:destruction of homes. Before photo taken by me a few weeks ago. After photo via @IssamAhmed #StopEvictions pic.twitter.com/V7p7WTGWAL”
— Nosheen Abbas (@Goshno) July 31, 2015
اسی پیغام پر ایک اور صحافی نوشین عباس نے کچی آبادی کی پہلے اور بعد کی تصاویر دکھاتے ہوئے لکھا کہ بے ہنگم تباہی گھرں کی ہوگئی ہے، تباہی سے کچھ ہفتے پہلے یہ تصویر میں نے لی اور تباہی کے بعد @IssamAhmed نے ۔
بے گھر ہونے والوں کے لیے یہ لڑائی صرف سول سوسائٹی والے نہیں بلکہ عوامی ورکر پارٹی بھی لڑ رہی ہے ،جس نےانہی کچی آبدی کے رہائشویں کی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت گرفتاری ہونے پر بھی آواز اٹھائی ہے ۔
عوامی ورکر تحریک نے ٹویٹ کیا کہ
FIR has been registered against 58 kachi abadis residents including Hassan Turi under Anti Terrorist Act #FreeHassanTuri #StopEvictions
— AWP Islamabad (@AWPIslamabad) July 30, 2015
(کچی آبادی کے اٹھاون رہائشیوں اور انسانی حقوق کے کارکن حسن طوری کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کی گئ ہے۔ حسن توری کو رہاکرو ، بے دخلی بند کرو ۔)
کچھ لوگ کہتےہیں کہ لوگ صرف اس لیے ان کچی آبادیوں کے لیےآواز اٹھا رہے ہیں کہ ایسی آبادیوں کے ختم ہونے سے ان کے کام کاج کرنے والے بھی یہاں سے چلے جائیں گے اور ان کا انداز زندگی متاثر ہوگا. تا ہم مہم اور تحاریک ایک طرف، اب بھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت سماجی ویب سائٹوں پر اٹھنے والے اس ہنگامے پر کیا ایکشن لیتی ہے، اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو یہ بات واضح ہےکہ سول سوساءتی ان کے لیے لڑنے کو تیار ہے۔