میری دو سالہ بیٹی میری طرف دیکھ رہی ہے وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا ہوا مما؟
خون سےرنگی سبز اور زرد رنگ کی ٹائیز اور وہ سفید یونیفارمز کے مناظر میرے دماغ سے نہیں نکل پارہے ،،خدا کرے یہ مناظر اسے میری آنکھوں میں نہ دکھیں ،،،
کچھ ہی دیر بعد میرے شوہر نے مجھے ایک ایس ایم ایس کیا ،اس نے لکھا کہ ہم جب ایسی ہی عمر میں تھےاور صبح ہی صبح اسکول میں اسمبلی میں کھڑے ہوتے تھے تو ہم ایسے کسی واقعے کا، تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
سولہ دسمبر کو نو حملہ آور پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوئے اور 130 معصوموں کو سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دیا ،ہنستے مسکراتے ،مستقبل کے معماروں کی جانیں بربریت سے چھین لیں،اندوہناک واقعے میں درجنوں طلبا زخمی ہوئے ،، سینکڑوں کے زہنوں پریہ واقعہ وحشت کے ان مٹ نقو ش چھوڑ گیا ،،
ہم اپنے بچوں کو بیڈ کے نیچے چھپے جھوٹے موٹے مونسٹرز سے بھی بچاتے ہیں ،، اور وہ بچے انہوں نے اپنی کلاسوں میں دہشتگردوں کے روپ میں اصل مونسٹرز دیکھے ،
ترجمان طالبان پاکستان نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ مسلح دہشتگردوں کے اسکول میں داخل ہونے کے 30 منٹ بعد پاکستان کی اسپیشل فورسز نے اسکول کا کنٹرول سبھال لیا تھا، اس نے بتایا کہ یہ حملہ طالبان کے خلاف جون سے وزیرستان میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کا بدلہ لینے کے کیا گیا،اس حملے کا نشانہ زیادہ تر آپرین ضرب عضب میں حصہ لینے والے ماں باپ کے بچے بنے ہیں
پاکستان بھر میں آرمی پبلک اسکول سسٹم ایک معیاری تعلیمی ادارہ مانا جاتا ہے، جس میں ہزاروں کی تعدا د میں فوجی اہلکاروں اور دیگر لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ممکن ہے۔
بہت سے پاکستانیوں کو معیاری یا بڑھتا ہواجیسےا لفاظ پرتعجب ہوا ہو
،میں نےپچھلے چند گھنٹوں میں اس اسکول کی ویب سائٹ وزٹ کی اوراس کا باقی اسکولوں کے معیار سے موازنہ کرنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچی ہوں یہ الفاظ اس کا خلاصہ ہیں۔
ملک بھر میں 146 سے زائدآرمی پبلک اسکول ہیں جن میں سے کئ ریموٹ علاقوں میں بھی ہیں جہاں کوئی اور اسکول نہیں ہیں ، جبکہ سٹی اور بیکن ہاوس جیسے اسکول سسٹم جو اے پی ایس کے معیار کے ہیں ان کی فیسیں اے پی ایس کے مقابلے میں کئ گناہ زیادہ ہیں۔
کئ سال پہلے میرے شوہر اور ان کے بھائیوں کو اپنے والد کی ریموٹ علاقوں میں پوسٹنگ ہوجانے کی وجہ سے انہی علاقوں کے آرمی پبلک اسکولوں میں تعلیم جاری رکھنی پڑتی تھی اکثر وہ اپنی املا کی غلطیوں نکالتے ہوئے اے پی ایس کواز راہ مزاق اس کا قصور وار ٹھراتے ہیں ، مگر حقیقت میں کچھ ایسی چیزیں جو ان کی اسکولنگ میں انہیں سکھائی گئیں وہ مجھے بھی بہت نئ اور خاص لگتی ہیں حالاناکہ میں خود نیویارک کے کونونٹ اسکول اور اسلام آباد کے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم رہی ہوں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں بہت سے جھول ہیں لیکن اے پی ایس کم اخراجات میں بہترین تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کی بھرپور کوشش کررہاہے ،ویب سائٹ دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ اے پی ایس ایک جامع اور مکمل تعلیمی نظام مہیا کررہا ہے ،،جس میں نہ صرف طالبعلم بلکہ اساتذہ اور والدین بھی مستفید ہورہے ہیں۔ ٹیچر ٹریننگ کے حوالے سے ایے پی ایس کی ویب سائٹ پر موجود ایک اقتباس کچھ یوں ہے کہ ” اسکولوں میں باقاعدہ پڑھائی اس وقت طالبعلموں کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے جب وہ اس سےاپنی روز مرہ زندگی میں فائدہ اٹھا سکیں،اس سے ان کے تعلیم کی جانب رجحان میں بھی اضافہ ہوتاہے اور وہ مزید دلچسپی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں “
دوسرے اسکولوں کی نسبت ایے پی ایس میں اتحاد ، تنظیم ،یقین اور برداشت جیسے معاشرتی اقداروں کی جانب توجہ دی جاتی ہے ،
سال دو ہزار تیرہ میں اے پی ایس کی مرکزی تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پروالدین کے لیے تبچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک پراجیکٹ شروع کیا جسکا نام ” مسکراہٹوں کے ساتھ جزباتی طور پر مضبوط بچے اٹھائیں” رکھا گیا ،اس تحریک میں تجربہ کار ماہر نفسیات کی خدمات لی گئیں ،میں نے اس سروس کو نہیں آزمایا مگر اس پروجیکٹ میں ماہر نفسیات والدین کی طرف سے پوچھے گئے سوالات اور مسائل کا حل ای میل کے زریعے تجویز کرتے ہیں ،
اسی ویب سائٹ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اے پی ایس ایک باقاعدہ معاشرتی تہذیب اور اقدارکے کی آگاہی کے حوالے سے ایک پروگرام چلا رہا ہے جو عالمی طور پر بہتر انسان بننے پر زور دیتا ہے جس سے دنیا میں تنازعات سے پاک امن و امان سے مزین فضا قائم ہوسکے ۔
اس پروگرام کے باعث سال 2013 اور 2014 کوامن و ہم آہنگی کا سال قرار دیا گیا اور اس سال کی ہینڈ بک میں تنازعات کے حل ، غنڈہ گردی ، سائبر حملوں اور ریسائکلنگ کے علاوہ مزید بہت سے موضوعات پر بات چیت کی گئ ہے۔
ایک پورا حصہ ویب سائٹ پر کلاس روم میں ہونے والے جھگڑوں اور ان سے نمٹنے کے بارے میں درج ہے ، اس سے ایک اقتباس ملا حضہ کریں ،
” بحیثیت انسان، ہر شخصیت مخلتف ہوتی ہے جس کی اقدار ،عقیدے ،ضروریات اور فوقیات دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہیں لہزا تنازعات ،جھگڑے یا اختلافات ہونا ہماری زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں ،ضروری نہیںکہ اختلافات یا جھگڑے ہر صورت بگاڑ پیدا کریں یا تباہ کن ہون ، یہ ہمارے اوپر ہوتا ہے کہ ہم ان جھگڑوں ،اختلافات کوتعمیری پہلو سے لیتے ہیں یا تباہ کن انداز میں لیتے ہیں۔”
مجھے نہیں اندازہ کہ یہ تربیتی مواد کس طرح ایے پی ایس کی درجنوں شاخوں پر اثر انداز ہورہے ہیں ،لیکن در حقیقت یہ ان بچوں کے لیے ایک باقاعدہ نظام ہے اور نصب العین ہے جن کے والدین پاکستان کو درپیش سب سے مشکل اور بھیانک مسائلے یعنی طالبان سے جنگ کا حصہ ہیں۔
پاکستان کے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے اے پی ایس جیسے معیاری نظام تعلیم اور تیچر ٹریننگ پروگرام سے بہت کچھ سیکھ کر اپنے تعلیمی نظام کو بہت بہتر بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ ہتھیاروں ،بموں اور گولیوں سے نہیں جیتی جاسکتی ، یہ بچے اس سفاکانہ نظام کا شکار ہوسکتے ہیں ،، کامیابی کا حصول ممکن ہے جب کہ اگر ان عوامل کو بھانپ لیا جائے جو اس بے رحم سوچ کی وجہ ہیں ۔
سحر حبیب غازی گلوبل وائسیز کی مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ سحر کا یہ تحریر لکھنے کے پیچھے مقصد یہ با لکل نہیں تھا کہ یہ آرمی پبلک اسکول کی پریس ریلیز معلوم ہو، اگر پڑھنے میں ایسا لگ رہا ہے تو یم معزرت خواہ ہیں۔ سحر کا یہ ماننا ہے کہ اے پی اس کی کہانی ان بہت سی اہم کہانیوں میں سے ایک ہے کہ جنہیں پاکستان میں باقائدہ توجہ نہیں مل پاتی۔ سحر ٹویٹر پر مندرجہ زیل نام سے ٹویٹ کرتی ہیں۔