حال ہی میں شائع ہوئی ایک شارٹ فلم میں امریکی ڈرون جنگ کا پاکستان پر سماجی، سیاسی، اور جانی اثرات کو موضوع بنایا گیا۔
“ایکسپوزنگ دی انویزیبل” نامی بین الاقوامی ٹیکٹیکل ٹیکنالوجی کولیکٹو این پی او نے “ان سین وار” (اندیکھی جنگ) نامی فلم تیار کی ہے جو کہ معلومات، اطلاعت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو استعمال
کرتے ہوئے اپنی فلموں کے زریعے اپنی کے ذریعے اپنی ایڈووکیسی کے امور کی ترویج کرتا ہے۔
اُن کے کام پر مبنی سیریز کے معاشرے کے مسائل کے پیچھے چھپی ہوئی داستان کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کرتے ہوئے تفتیشی ریپقرٹس کو کہانیوں کی شکل میں شائع کرتی ہے۔
ان کی ویب سائیٹ کے مطابق:
ہم نے پاکستان میں اور اس سے باہر صحافی، سرگرم کارکنان اور ماہرین سے فاٹا کے قبائلی علاقوں میں ہونے والی لڑائی کے اثرات کے متعلق بات کی کہ یہ کیوں اور کیسے ممکن ہے، اور کیسے ہم مواد اور تصاویر کو جاری کر کے اس مسلئہ کو مزید واضح طور پر سامنے لا سکتے ہیں۔
بظاہر امریکہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شامل ہے اور خودکار ہوائی گاڑی (ڈرون) سے شمال مغربی پاکستان میں 2004 سے اب تک سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ وہ سرکاری سطح پر پاکستان میں سی آئی اے کے 300 سے زائد ڈرون حملے کرنے سے انکار کر چکا ہے اور صرف غیر سرکاری طور پر ابتدائی ہدایات میں ان کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ گزشتہ پاکستانی حکومت نے ان حملوں کی کھل کر مذمت کی تھی لیکن وکی لیکس نے بے نقاب کیا کہ انہوں نے خفیہ سطع پر حملوں کی اجازت دی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ میں خبر منظر عام پر آئی ہے کہ پاکستان کے عسکری عہدہدار یہاں تک کے وہ جو دردمندی سے ڈرون حملوں کے متعلق شکایت کرتے ہیں، مخفی رکھتے ہوئے احدافِ منتخب پر حملے کی اجازت دیتے ہیں۔
ایک لیک ہوئی پاکستانی رپورٹ کا انکشاف ہے کہ اموات کی تعداد امریکی انتظامیہ کی بتائی ہوئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ بیورو آف انویسٹیگیشن جرنلزم کے مطابق پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ہونے والی اموات اندازًا یہ ہیں:
پاکستان 2004-2013 سی آئی اے ڈرون حملے
حملوں کی تعداد: 381
جان بحق ہونے والوں کی تعداد: 2،537-3،646
جان بحق ہونے والے غیر عسکری لوگ: 416-951
جان بحق ہونے والے بچے: 168-200
زخمی افراد: 1،128-1،557
زیادہ تعداد میں اموات کی وجہ ناقص معیارِ جاسوسی ہے جیساکہ یہ جانے بغیر حملہ کرنا کہ وہ شخص جو ایک موبائل یا سم کارڈ رکھتا ہے اور اسی کے ذریعے نشانے پر ہے وہ دراصل حملے کا اصلی نشانہ ہے یا نہیں۔
جرمی شائل، صحافی اور”ڈرٹی وارز: دی ورلڈ از اے بیٹل فیلڈ” کے مصف نے وضاحت کی ہے کہ کیسے امریکی انتظامیہ نے ڈرون حملوں کو جائز قرار دینے کے لیے “شدید خطرہ” اور “مخالف دشمن ” کی نئی تعریف کی ہے مثلاً ایک دہشتگردی کے علاقہ میں تمام بالغ نوجوان مردوں کو مخالف یا دشمن قرار دیا گیا ہے یہ اخذ کرتے ہوئے کہ وہ کسی طرح بھی معصوم نہیں ہیں اور ان کی سزا ڈرون کے ذریعے موت ہے۔
فلم “Unseen War” میں دیئے گئے مکمل انٹرویوز سننے کو ملیں گے۔ آپ فلم کو ویب سائٹ پر دیکھ یا ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔آپ کہانیاں بھی پڑھ سکتے ہیں اور بحث میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔
اس فلم کی سکریننگ اسلام آباد اور کراچی میں ہو چکی ہے اور وہ جو مستقبل میں سکریننگ کا انتظام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یہاں سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں پر دیگر دو فلم مدیحہ ظاہر کی واؤنڈز آف وزیرستان اور جرمی شائل کی ڈرٹی وارز ایک سال قبل ریلیز ہو چکی ہیں۔