یہ مضمون شامی مظاہروں (۲۰۱۱- ۲۰۱۲) پر ہماری خصوصی تشہیر کا حصہ ہے۔
شام میں انقلاب نے کئی مصوروں، لکھاریوں، پینٹروں، ڈائریکڑوں اور فوٹوگرافروں کو بہت متاثر کیا ہے۔ اس نے شامیوں کے اندر موجود حسِ لطیف کو زندہ کردیا ہے اور یہ مصور اپنے فن پاروں کی انٹرنیٹ پر نمائش کررہے ہیں۔
تصویروں، گانوں، اور نطموں کے ذریعے وہ نہ صرف شامی عوام کی جدوجہد کے بارے میں بتارہے ہیں بلکہ ایک آزاد اور جمہوری ملک کے خواب کا بھی اظہار کررہے ہیں۔
وسیم الجزیری ایک نوجوان شامی گرائفیک ڈزائینر ہیں جنہوں نے اپنے بلاگ اور فیس بک صفحے کے ذریعے پرامن طریقے سے شامی عوام کی جدوجہد کا ساتھ دیا ہے۔
گلوبل وائسز سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
میں نے انقلاب کیلئے کام کرنے کا فیصلہ دارا میں مسجدِ العمری پر اپریل ۲۰۱۱ میں ہونے والے حملوں کے بعد کیا۔ میں نے اپنے خیالات کے اظہار کیلئے مابعد طبیعات کا سہارا لیا تاکہ میں لاشعور میں جگہ بنا سکوں۔ میں نے روایتی اور سیاسی ڈیزائین سے مدد نہیں لی۔
وسیم کی یہ جدوجہد خطرے سے خالہ نہیں ہے۔ ان کو کئی بار دھمکیاں ملیں اور شامی حکومت کی نظر میں وہ فراری مجرم ہیں۔ وہ ابھی ایک نہ معلوم مقام میں زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ ان کے والدین نے شام سے ہجرت کرلی ہے۔
ان کے کچھ فن پارے مندرجہ ذیل ہیں۔ فن پاروں کی تشہیر ان کی اجازات کے بعد کی جارہی ہے۔ یہ تصاویر ان کے فیس بک صفحے یا ویب سائٹ پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
یہ مضمون شامی مظاہروں (۲۰۱۱- ۲۰۱۲) پر ہماری خصوصی تشہیر کا حصہ ہے۔