گزشتہ دو ہولناک راتیں پر تشدد تھیں۔ پہلی رات کو بیروت میں 40 سے زائد کی جان گئی، دوسری رات پیرس میں 120 سے زائد کی اور گنتی ابھی جاری یے۔
مجھ پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ دنیا کے لیے، بیروت میں میرےاپنے لوگوں کے مرنے سے اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کہ پیرس میں میرے اپنے لوگوں کے مرنے سے۔
ہمیں فیس بک پر ایک ” محفوظ” بٹن حاصل نہیں ہے . ہمیں آدھی رات کو دنیا کے زندہ طاقتور مردوں اور عورتوں اور لاکھوں آن لائن صارفین کے بیانات نہیں ملتے ۔
ہم ان پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرتے جو ان گنت معصوم پناہ گزینوں کی زندگی پر اثر انداز ہونگی۔
یہ اس سے زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہو سکتا تھا .
میں یہ بات کوئی ناراضگی کے ساتھ نیں کہ رہا ،بلکہ صرف رنج کے ساتھ بتا رہا ہوں.
اس بات کو ذہن نشین کرنا مشکل ہے اس سب کے بعد جو کچھ کہا جا چکا ہے، ان سب ترقی پسند پرجوش دعووں کے بعد کہ ہم بظاہر متحد انسانی آواز کے طور پر ایک ہیں، کہ ہم میں سے بیشتر متجسس قسم کے لوگ اب بھی”دنیا” کے قابِل اثر خدشات کا حصہ نہیں ہیں۔
اور میں جانتا ہوں کہ میں بھی اس “دنیا ” کا حصہ ہوں، اور میں خود سے زیادہ تر دنیا کو بے دخل کر رہا ہوں . کیونکہ طاقتور ڈھانچے اسی طرح کام کرتے ہیں .
میری کوئی اہمیت نہیں .
میری ” لاش” کی اس “دنیا” میں کوئی اہمیت نہیں .
میں مرا تو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا .
ایک بار پھر، میں یہ خفگی کے ساتھ نہیں کہہ رہا.
یہ بیان محض ایک حقیقت ہے . یہ سچ یے کہ یہ ایک سیاسی حقیقت یے، لیکن اس کے باوجود ایک حقیقت ہے .
شاید مجھے ناراض ہونا چاہئے، لیکن میں بہت تھک چکا ہوں. اس بات کا احساس مجھ پر بہت بھاری پڑ رہا ہے۔
میں یہ جانتا ہوں کہ میں کافی خوش قسمت ہوں اور جب میں مروں گا تو مجھے دوستوں اور پیاروں کی طرف سے یاد کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ میرے بلاگ اور کوئی آن لائن ہستی میرے لیئیے بھی دنیا بھر کے لوگوں کی طرف سے کچھ خیالات جمع کرے. یہ انٹرنیٹ کی خوبصورتی ہے . اور یہ بھی بہت سے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے .
آج سے پہلے میں نے امریکی لکھاری تا ناہیسی کوٹس کی ، امریکہ میں سیاہ فام لاش کے حوا لے سے تحریروں کو اتنا واضح طور پر کبھی نہیں سمجھا تھا. میرے خیال میں عرب لاش کی کہانی بھی بتائی جانی چاہئیے۔ مقامی امریکی لاش. سودیشی لاش. لاطینی امریکی لاش. بھارتی لاش. کرد لاش. پاکستانی لاش. چینی لاش. اور بہت سی دیگر کی۔
انسانی جسم یا لاش ایک نہیں ہے.ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اب تک ہونا چاہئےتھا . ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ایک وہم ہو. لیکن شایداس وہم کو پالنا فائدہ مند ہو، کیونکہ جسم کے کچھ حصوں کی ایک ہونے کی مبہم خواہش کے بغیر، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم کس طرح کی دنیا میں رہ رہے ہوتے۔
“کچھ لاشیں عالمی ہیں، لیکن سب سے زیادہ لاشیں “نسلی”، علاقائی، مقامی رہتی ہیں.”
میری سوچ آج اور کل کے ہولناک حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں، او رمیں ان تمام لوگوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو کہ چند قاتلوں اور انسانیت کی خود کو ایک متحد طور پر دیکھنےکی عمومی ناکامی کے باعث سنگین تعصب کا شکار ہوں گے۔
میں صرف یہ امید کرتا ہوں کہ ہم انتے مضبوط ہوں کہ ان مجرموں کے ارادوں کے برعکس ردعمل پیدا ہو. میں اتنا پر امید ہوں کہ کہہ سکتا ہوں کی ہم اس مقام تک پہنچ جائیں گے، کہیں بھی “وہاں” موجود سکتا ہے.
ہمیں ان کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے. ہمیں نسل کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے. اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔