بھارتی فوٹو جرنسلسٹ عاقب خان تیزی سے بدلتے افغان دارالحکومت کابل میں 2014 میں آئے اور اپنے تجربات کو ان تصاویر کی زبانی گلوبل وائسز ساتھ شیئر کیا۔
افغانستان کے حوالے سے جو تصویر زہن میں آتی ہے وہ جنگ سے تباہ شدہ ملک کی ہے، جہاں خواتین کو ان کے حقوق حاصل نہیں، ایک ایسا ملک جو جدت سے بہت دور ہے کہ جہاں جوان اور بوڑھے کوئی بھی اچھے مستقبل کی امید نہیں رکھتا۔ میرے زہن میں بھی تصویر مختلف نہ تھی۔ اور پھر یوں ہوا کہ میرا آنا ملک کے دارالحکومت کابل آنا ہوا۔
کابل کے بہت سے مناظر نے اس تصویر کی تصدیق کی کہ جو ہم سب کے ذہن میں اس ملک کے حوالے سےتھی، لیکن اس شہر میں بہت سے ایسے مناظر بھی تھے کہ جو میڈیا کا کیمرہ ہمیں نہیں دکھاتا۔ قدیم و جدید، ماڈرنیٹی و قدامت، ایک دوسرے سے یہاں نبردآزما ہیں۔ لیکن اس ٹاکرے میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ افغان جیت رہے ہیں۔
کابل ایک شہر امید ہے، شہر تمنا ہے، اور گرمجوشی و مہمان نوازی سے بھرپور شہر ہے۔ اور یہ سب تب اور بڑھ جاتی تھی جب افغان میرا نیلا پاسپورٹ دیکھتے اور پھر گفتگو کچھ یوں ہوتی۔ اوہ آپ بھارتی ہو؟ مجھے بھارتی فلمیں بہت پسند ہیں۔
ملک کی میوزک شاپس پر بھارتی فلمی ستاروں کے پوسٹر سجے ہوتے ہیں۔ شہر میں ایک مال کا نام دہلی کے مشہور سیلیکٹ سٹی والک کے نام پر ہے۔ بھارتی یونیورسیٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ جا بجا نظر آ جاتے ہیں۔
افغانستان میں یکسنگی بہت زیادہ ہے۔ برقعہ پوش لڑکیاں اسکول کی جانب رواں دواں نظر آتی ہیں اور نوجوان خواتین اپنی یونیورسٹی کی جانب، پس منظر میں بالی وڈ اور ہالی وڈ کی سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ یہ سب طالبان کی جانب سے تفریح پر لگائی پابندی سے بہت مختلف منظر ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں طالبان نے بدھ کے مجسمے توڑ ڈالے وہاں عروسی ملبوسات میں ملبوس پتلے ایک شاندار منظر پیش کرتے ہیں۔
اور پھر وہاں موبائل سروس فراہم کرنے والوں کی اشتہاری جنگ جاری ہے، ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز ہیں، 24 گھنٹے نشر ہونے والے ٹی وی چینلز ہیں، اور بیشتر ٹالک شوز ہیں جن میں حقوق نسواں پر بات ہوتی ہے۔ شہر بھر میں بیشتر حقہ بار موجود ہیں، جہاں حقہ اور کافی پیش کی جاتی ہے۔
اپ کے پاس سے سواریاں گزرتی ہیں اور اپ کو بے تحاشہ گرد میں اٹا چھوڑ جاتی ہیں۔ افغانوں کو کابل میں بڑھتی آلودگی کے حوالے سے شکائت ہے۔ سیکورٹی اہلکار سڑکوں پر، اور ہیلی کاپٹر پیدل چلنے والوں کے اوپر حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تمام تر پرچاؤ کے ہوتے ہوئے بھی بہت سے خچشات ہیں، کہ ملک میں موجود امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کیا ہوگا؟ لیکن نوجوان افغان نسل کو ماننا ہے کہ ان کا ملک دہائیوں کی کمزوری اور تقسیم کے بعد اب طاقت جمع کر رہا ہے۔
آج کل یہاں ایک نعرہ بہت معروف ہے کہ “نہ کوئی تاجک، نہ ہزارہ، نہ پشتون بس ایک افغانستان۔”