جدید افغانستان کی 32 تصاویر

001

افغانستان کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر کابل کا ایک منظر۔ کابل کی آبادی 33 لاکھ کے قریب ہے۔ کابل کا صوبہ ملک کا واحد صوبہ ہے جو

بھارتی فوٹو جرنسلسٹ عاقب خان تیزی سے بدلتے افغان دارالحکومت کابل میں 2014 میں آئے اور اپنے تجربات کو ان تصاویر کی زبانی گلوبل وائسز ساتھ شیئر کیا۔

 افغانستان کے حوالے سے جو تصویر زہن میں آتی ہے وہ جنگ سے تباہ شدہ ملک کی ہے، جہاں خواتین کو ان کے حقوق حاصل نہیں، ایک ایسا ملک جو جدت سے بہت دور ہے کہ جہاں جوان اور بوڑھے کوئی بھی اچھے مستقبل کی امید نہیں رکھتا۔ میرے زہن میں بھی تصویر مختلف نہ تھی۔ اور پھر یوں ہوا کہ میرا آنا ملک کے دارالحکومت کابل آنا ہوا۔

کابل کے بہت سے مناظر نے اس تصویر کی تصدیق کی کہ جو ہم سب کے ذہن میں اس ملک کے حوالے سےتھی، لیکن اس شہر میں بہت سے ایسے مناظر بھی تھے کہ جو میڈیا کا کیمرہ ہمیں نہیں دکھاتا۔ قدیم و جدید، ماڈرنیٹی و قدامت، ایک دوسرے سے یہاں نبردآزما ہیں۔ لیکن اس ٹاکرے میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ افغان جیت رہے ہیں۔

اسکول کے بچے کیمرہ سے اپنا منہ چھپاتے ہوئے۔ یہاں بہت لوگوں کا ماننا ہے کہ فوٹو بنوانا گناہ ہے۔

کابل ایک شہر امید ہے، شہر تمنا ہے، اور گرمجوشی و مہمان نوازی سے بھرپور شہر ہے۔ اور یہ سب تب اور بڑھ جاتی تھی جب افغان میرا نیلا پاسپورٹ دیکھتے اور پھر گفتگو کچھ یوں ہوتی۔ اوہ آپ بھارتی ہو؟ مجھے بھارتی فلمیں بہت پسند ہیں۔

کابل کی ایک میوزک شاپ پر آویزاں بھارتی فلم جب تک ہے جاں کا ایک لائف سائز پوسٹر جس پر شاہ رخ خان اور کترینہ کیف موجود ہیں۔ ملک میں نئی بھارتی فلمیں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ترکی ٹی وی سوپ بھی بہت مقبول ہو رہے ہیں۔

کابل کی میوزک مارکیٹ میں بھارتی فلمیں اور گانے چھائے ہوئے ہیں، لیکن نوجوانوں میں جینیفر لوپیز اور بریٹنی سپیئرز بھی کافی مقبول ہیں۔ نئے و پرانے گانے ٹیکیسی میں، دکانوں میں، اور نوجوانوں کے فونز میں سنے جا سکتے ہیں۔

ملک کی میوزک شاپس پر بھارتی فلمی ستاروں کے پوسٹر سجے ہوتے ہیں۔ شہر میں ایک مال کا نام دہلی کے مشہور سیلیکٹ سٹی والک کے نام پر ہے۔ بھارتی یونیورسیٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ جا بجا نظر آ جاتے ہیں۔

کابل کا سیلیکٹ سٹی مال۔ کابل شہر میں بہت سے شاپنگ مال کھل رہے ہیں۔

دل جان کابل کی سڑکوں پر سالوں سے کتب فروشی کر رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نوجوان افغانوں کو اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے لازمی پڑھنا چاہیئے۔

افغانستان میں یکسنگی بہت زیادہ ہے۔ برقعہ پوش لڑکیاں اسکول کی جانب رواں دواں نظر آتی ہیں اور نوجوان خواتین اپنی یونیورسٹی کی جانب، پس منظر میں بالی وڈ اور ہالی وڈ کی سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ یہ سب طالبان کی جانب سے تفریح پر لگائی پابندی سے بہت مختلف منظر ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں طالبان نے بدھ کے مجسمے توڑ ڈالے وہاں عروسی ملبوسات میں ملبوس پتلے ایک شاندار منظر پیش کرتے ہیں۔

خوشنما عروسی ملبوسات سے ڈھکی پتلیاں۔ ایک عام عروسی جوڑا پندرہ ہزار افغانی لگ بھگ 215 ڈالر سے بیس ہزار افغانی لگ بھگ 340 ڈالر تک مل جاتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں کئی شہانہ شادی ہال شہر میں قائم ہو چکے ہیں۔

اور پھر وہاں موبائل سروس فراہم کرنے والوں کی اشتہاری جنگ جاری ہے، ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز ہیں، 24 گھنٹے نشر ہونے والے ٹی وی چینلز ہیں، اور بیشتر ٹالک شوز ہیں جن میں حقوق نسواں پر بات ہوتی ہے۔ شہر بھر میں بیشتر حقہ بار موجود ہیں، جہاں حقہ اور کافی پیش کی جاتی ہے۔

افغانستان میں فونز اور سی ڈی میں گانے اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا رواج بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بہت سے نوجوان حتاکہ عمر رسیدہ مذہبی افراد بھی ان دکانوں کا رخ کرتے ہیں کہ جہاں سے اپنی مرضی کے گیت حاصل کئے جا سکیں۔

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد شہر میں دو سو سے زائد جم کھلے۔ کچھ جم خواتین کے لئے بھی ہیں۔

اپ کے پاس سے سواریاں گزرتی ہیں اور اپ کو بے تحاشہ گرد میں اٹا چھوڑ جاتی ہیں۔ افغانوں کو کابل میں بڑھتی آلودگی کے حوالے سے شکائت ہے۔ سیکورٹی اہلکار سڑکوں پر، اور ہیلی کاپٹر پیدل چلنے والوں کے اوپر حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تمام تر پرچاؤ کے ہوتے ہوئے بھی بہت سے خچشات ہیں، کہ ملک میں موجود امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کیا ہوگا؟ لیکن نوجوان افغان نسل کو ماننا ہے کہ ان کا ملک دہائیوں کی کمزوری اور تقسیم  کے بعد اب طاقت جمع کر رہا ہے۔

آج کل یہاں ایک نعرہ بہت معروف ہے کہ “نہ کوئی تاجک، نہ ہزارہ، نہ پشتون بس ایک افغانستان۔”

افغانستان افغانیوں کا! لسانی و علاقائی بنیاد پر تقسیم افغانوں کو اتحاد کا پیغام دیتی ہوئی وال گرافیٹی۔

تباہ شدہ دار الامن محل کے پاس نوجوان انٹرنیٹ سرفنگ کر رہے ہیں۔ یہ محل 1930 کی دہائی میں تعمیر ہوا اور کابل میں ہونے والی بہت سی سیاسی تغیرات کا گواہ بنا۔ افغانستان میں صرف ساڑھے پانچ فیصد نوجوانوں کو انٹرنیٹ تک رسائی میسر ہے 2012 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں دو کروڑ موبائل فون صارف موجود ہیں۔ 2014 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹیکنالوجی نے پیغام رسانی کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا۔

نادر شاہ کے مقبرہ پے موجود افغان سپاہی۔ ملک میں ساڑھے تین لاکھ فوج کے سپاہی موجود ہیں۔ لیکن ابھی بھی غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد اڑیل طالبان سے مقابلے کی سکت کے حوالے سے ابھی بھی خدشات موجود ہیں۔

برقعہ جو طالبان دور حکومت کے بر عکس اب سرکاری طور پر رائج نہیں اب بھی عام پایا اور دیکھا جاتا ہے۔ افغانستان کی پارلیمنٹ میں 28٪ خواتین کی نمائندگی ہے۔

طالبان دورِ حکومت میں اسکولوں میں طالبات کی تعداد صفر تھی اور طلبہ کی تعداد دس لاکھ کے قریب تھی۔ 2012 میں ورلڈ بینک کی جانب سے پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اب 78 لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں جن میں سے 29 لاکھ لڑکیاں ہیں۔ افغانستان میں خواتین کی شرح خواندگی 36٪ ہے۔

افغان عینک فروش

جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بر عکس نسبت افغانی چاول سے زیادہ گندم پسند کرتےہیں۔ روائتی نان ملک بھر میں سڑک کنارے واقع دکانوں میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ تندور والے مختلف طرح کے نان تیار کرتے ہیں کبھی کبھی تو یہ دو سے تین فٹ لمبے ہوتے ہیں اور مختلف ڈیزائن کے ہوتے ہیں۔

ایک طویل عرصہ تک میدان جنگ رہنے والے اس ملک میں اب بھی بہت سے لوگوں کا گزر بسر چھوٹی موٹی تجارت پر ہے۔ ایک عارضی منی ایکسچینج کے پاس بیٹھا ایک بوڑھا شخص ٹوپیاں سی رہا ہے۔ ملک میں کرنسی ایکسچینج کی مانگ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ ملک میں موجود غیر ملکی باشندے ہیں۔

کابل کے سب سے بڑے آئی ڈی پی کیمپ کے باہر ایک لڑکی اپنے آپ کو بارش سے بچانے کے لئے بھاگتے ہئے۔ چاراہی کمبر میں واقع آئی ڈی پی کیمپ میں نوسو کے قریب خاندان آباد ہیں۔ یہاں کوئی اسکول موجود نہیں اور صحت کی سہولیات کے نام پر ایک موبائل کلینک موجود ہے جس میں چار ڈاکٹر موجود ہیں۔ یہاں پر آباد بہت سے لوگ ہلمند، قندھار، اور ارزگان سے ہجرت کر کے ائے یہں کہ جو ابھی بھی تنازعہ کی زد میں ہیں۔ کابل کے گرد ایسے چالیس کیمپ آباد ہیں۔

کابل میں ایسے ریستوران اور قہوہ خانے تیزی سے کھل رہے ہیں کہ جہاں نوجوان گا سکیں، رقص کر سکیں، حقہ نوشی اور کافی نوشی کر سکیں۔ بہت سے گلوکار بلکہ خواتین گلوکار بھی ان جگہوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں پولیس کی جانب سے مارے جانے والے چھاپوں نے کابل کے کیفے کلچر کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

کابل کے ایک مصروف بازار میں ایک کباب فروش۔ کابل میں سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے شام اور رات کی سرگرمیاں کافی محدود ہیں۔

نوجوان لڑکا احمد شاہ مسعود کی تصویر کی جانب دیکھتے ہوئے۔ احمد شاہ مسعود افغان جنگ کے ہیرو ہیں کہ جنہوں نے سوویت یونین اور طالبان کے خلاف جنگ لڑی۔ احمد شاہ مسعود کو نائن ایلون کے حملہ سے چند روز قبل قتل کر دیا گیا تھا۔

سولہ لاکھ کے قریب افغانی نشہ کی لت کا شکار ہیں جن میں سے سات فیصد بچے ہیں۔ 2001 میں امریکہ حملہ کے بعد افغانستان کے بہت سے علاقوں میں منشیات کی پیداوار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ملک اس وقت پوری دنیا کہ افیون پیداوار کا نوے فیصد پیدا کرتا ہے۔

ایک ننہا گڈریا اپنی کھلونا بندوق کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ کا پوز بناتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی جان کوبس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بچوں کو بطور سپاہی بھرتی نہ کیا جائے۔

ایک مفت فائٹ کلب کا منظر، یہ کابل کے نوجوانوں کا آج کل پسندیدہ مشغلہ ہے۔ نوجوان ایسے کلب میں جاتے ہیں تاکہ مارشل آرٹس کے گر سیکھ سکیں۔ ان کھیلوں کے مقابلوں سے جیتنے والوں کو اچھی انعامی رقم مل جاتی ہے۔

ایک پچہ رنگ برنگے غبارے بیچتے ہوئے۔ جنگ کی راکھ سے نکلنے کے بعد بہت سے بچے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے لوکل مارکیٹ میں کام کرتے ہیں۔

ایک پھل فروش اپنی دکان کو بند کرنے کی عجلت میں۔ افیون کے بعد پھل اور میوہ جات افغانستان کی سب سے بڑی برآمدات ہیں۔

ایک بچہ کیمرہ کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے۔

ایک پوسٹ کارڈ فروش کی دکان پر آویزاں مشہور افغانوں کی تصاویر والے پوسٹ کارڈ

گزشتہ چند سالوں سے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کافی اچھا کھیل پیش کر رہی ہے۔ گزشتہ برس کے کرکٹ ورلڈ کپ میں شرکت اس بات کا ایک ثبوت ہے۔

پچھلی ایک دہائی کے دوران افغانستان میں گوشت کے کاروبار نے بہت ترقی کی ہے۔ اس کاروبار سے بہت سے افغانیوں کا روزگار جڑا ہے۔

بزکاشی کے کھیل کا منظر پیش کرتی ہوئی ایک آئل پینٹنگ۔ یہ کھیل افغانستان اور وسطی ایشیاء میں بہت مقبول ہے۔

افغانی مزاحمت کی ایک نشانی، کابل کے نواح میں واقع روسی ٹینکوں کا قبرستان

Exit mobile version