- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

مرویہ ملک، پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر، اپنی کمیونٹی کی طرف سماجی نقطہ نظر تبدیل کرنا چاہتی ہیں

زمرہ جات: جنوبی ایشیاء, پاکستان, - شہری میڈیا., انسانی حقوق, ترقی, تقریر کی ازادی, گروہی اور نسلی, میڈیا و صحافت, ہم جنس پرستوں کے حقوق (LGBT)
[1]

مرویہ ملک، 21، پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر۔ وییوئل ٹی وی کی یو ٹیوب پر ویڈیو سے سکرین شاٹ۔

مرویہ ملک نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری [2] میں ملک کی پہلی خواجہ سرا  نیوز کاسٹر بن کر تاریخ رقم کر دی۔

لاہور سے 21 سالہ، جو کہ صحافت میں بیچلر کی ڈگری رکھتی ہیں، کام کے لیے نجی نیوز چینل کوہ نور نیوز میں اپلائے کیا، کوہ نور نیوز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا کہنا ہے کہ ملک کو میرٹ پر ملازمت دی گئی، اور ملک نے 23 مارچ کو اپنے کیریر کا آغاز ٹی وی پر کیا۔

پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر سکرین پر – مرویہ ملک

ڈان اخبار کو انٹرویو میں [6]، ملک، جن کی پہلی ملازمت میک اپ آرٹسٹ کے طور پر ایک بیوٹی سیلون میں تھی، وضاحت دیتی ہیں کہ کیسے انہوں نے نیوز اینکر کے اس موقع کو دیکھا:

Everywhere we go, a transgender person is looked down upon. But there’s nothing we can’t do; we’re educated, have degrees, but no opportunities, no encouragement. This is what I want to change […] I’m here to change my community’s destiny, not represent myself as an individual. […] I have set out on this journey to change lives of transgenders.

ہم جہاں بھی جاتے ہیں، خوجہ سرا کو نیچی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو ہم نہیں کر سکتے، ہم پڑھے لکھے ہیں، ڈگریاں ہیں، لیکن نہ موقعے، نہ حوصلہ افضائی۔ میں یہ تبدیل کرنا چاہتی ہوں […] میں یہاں اپنی کمیونٹی کی تقدیر بدلنے آئی ہوں، نہ کے خود کو دکھناے کے لیے۔ […] میں اس سفر میں خواجہ سراؤں کی زندگی بدلنے کے لیے نکلی ہوں۔

ملک کی کامیابی کو مشہور شخصیات، صحافیوں اور کرکنوں نے پاکستان اور دیگر جگہوں سے سراہا ہے۔ برطانوی-پاکستانی ادکار اور کارکن رز احمد نے، حال میں انسٹاگرام پوسٹ پر، ان کی تعریف کی اور تبصرہ کیا:

In some ways Pakistan has been ahead of the curve in certain aspects of trans rights. In other ways, it has lagged behind. Hoping we can all learn from each other in paving the way to greater inclusion.

کچھ طریقوں سے پاکستان خوجہ سرا کے حقوق کے لیے بعض پہلوؤں میں آگے ہے۔ دوسرے طریقوں میں، یہ پیچھے ہے۔ امید ہے کہ ہم سب راستے ہموار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سیکھیں۔

Congratulations to Marvia Malik. In some ways Pakistan has been ahead of the curve in certain aspects of trans rights. In other ways it has lagged behind. Hoping we can all learn from each other in paving the way to greater inclusion. [7]

A post shared by Riz Ahmed [8] (@rizahmed) on

مرویہ ملک کو مبارکباد۔ کچھ طریقوں سے پاکستان خوجہ سرا کے حقوق کے لیے بعض پہلوؤں میں آگے ہے۔ دوسرے طریقوں میں، یہ پیچھے ہے۔ امید ہے کہ ہم سب راستے ہموار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سیکھیں۔

جب جنس اقلیتوں کی بات آتی ہے تو پاکستان ایک مثبت ریکارڈ رکھتا ہے۔

پاکستان اور جنوبی ایشیا میں دوسری جگہوں میں “خواجہ سرا” اصطلاح عام طور پر ایک مخصوص گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ہجڑا [9] کے نام سے جانا جاتا ہے، جو نہ ہی مکمل طور پر مرد یا عورت سمجھے جاتے ہیں۔ کارکنوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے ان کی رسمی شناخت کے لئے طویل عرصے تک محاصرہ کیا ہے، اور 2011 کی تاریخی حکمرانی میں، پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کے انتخاباتی کمشن کو خواجہ سرا کمیونٹی سے ڈیٹا جمع کرنے اور انہیں ووٹرز کے طور پر رجسٹر کرنے کا حکم دیا [10]۔

2017 میں، پاکستان نے پہلا پاسپورٹ [11] X کیٹیگری کے ساتھ جاری کیا جس میں تیسری جنس کو نشانہ بنایا، اور اس سال کے شروع میں، پاکستان نے خواجہ سرا لوگوں کو پہلے ڈرائیونگ لائسنس [12] جاری کیے۔ 

لیکن خوجہ سرا لوگوں کو پاکستان میں تبعیض اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو روزگار کو محفوظ کرنا مشکل ہے اور زندہ رہنے کے لئے مانگنا یا جنسی کام کرنا پڑتا ہے۔

ملک نے ڈان کے ساتھ ان کے انٹرویو میں اس حقیقت کا ذکر کیا، اور کہا کہ وہ اس کو مخصوص راستہ میں تبدیل کرنے کی امید رکھتی ہیں:

She wants to push for a law making mandatory for families to give transgender persons their share in property as a boy or girl is. “Transgenders are forced to dance and beg because they have no other means to make ends meet. When they are shunned by families, they have nowhere else to go. My trans friends who have masters degrees don’t have jobs which is why they end up on streets or become sex workers. This is why I want to push for a law so a transgender if disowned, can make a living out of the share in the property.”

وہ ایسے قانون پر زور دینا چاہتی ہیں جو خاندان کے لئے لازمی بنائے کہ وہ خوجہ سرا کو بھی جائیداد میں ایک لڑکی یا لڑکے کی حیثیت سے حصہ فراہم کرے۔ “خواجہ سراؤں کو رقص اور بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جب وہ خاندانوں کی طرف سے چھوڑے جاتے ہیں تو ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ میرے خواجہ سرا دوست جو ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں وہ کام نہیں کرتے ہیں لہذا وہ سڑکوں پر نکل جاتے ہیں یا جنسی کارکن بن جاتے ہیں۔ لہذا میں ایک قانون کے لئے زور دینا چاہتی ہوں تا کہ اگر ایک خواجہ سرا غیر منحصر ہو بھی جائے، تو جائیداد میں حصہ لینے سے زندگی گزار سکے۔”