- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

“کیا دوسروں کو معلوم ہے کہ ہم موجود ہے؟”: شام کے محاصرہ شدہ علاقے مشرقی غوطہّ سے ایک نرس کی گواہی

زمرہ جات: شام, - شہری میڈیا., انسانی حقوق, پناہ گزیر, جنگ اور تنازعات, سیاست, عورت, دی برج

مشرقی غوطہّ کے علاقے ہارسٹا میں بچے شیلنگ سے بچ رہے ہیں۔ محمد ربیٰ نے یہ تصویر دمشق میڈیا سنٹر کے لیے لی۔ ان کی اجازت سے استعمال کی گئی ہے۔

یہ گواہی ہے بیرین حسون کی، ایک ماں اور نرس جو کہ مشرقی غوطہّ کے علاقے ہارسٹا شہر کی ہیں، جہاں شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے شدید بم دھماکے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔ حکومت کے مخالف باغیوں کے کنٹرول میں، مشرق غوطہّ کو شام کے حامیوں اور اس کے ساتھیوں نے 2013 کے آخر تک [1] محاصرہ میں رکھا ہے۔

120 سے زائد لوگوں [2] کو 6 فروری سے 8 فروری 2018 کے بیچ قتل کیا گیا، صرف 19 فروری کو 110 سے زائد لوگوں کو مرتے دیکھا [3] گیا۔ بعض تعدادوں نے گزشتہ تین ماہ میں تقریبا 1000 افراد کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کیا. بنیادی شہری ڈھانچے بھی کافی متاثر ہوا ہے،اس کے ساتھ چار ہسپتالوں کو 19 فروری کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔

گارڈین سے کریم شاہین نے بات کرتے [3] ہوئے، مشرق غوطہّ میں ایک ڈاکٹر نے کہا: “ہم اکیسویں صدی کے قتل عام سے پہلے کھڑے ہیں۔ اگر 1990s کے قتل عام میں سربرینیکا تھا اور 1980 کے دہائیوں کے قتل عام میں حجاج اور صباہرہ اور شاٹلا تھے تو پھر مشرق غوطہّ اس صدی کا قتل عام ہے۔”

بیرین حسون کی یہ گواہی گلوبل وائسز کی مرسیل شحوارہ [4] نے جمع اور لکھی ہے:

تقریبا ایک مہینے پہلے شیلنگ تیزی سے شروع ہوئی، لہذا میں اپنے خاندان کے ساتھ ہارسٹا میں پناہ گاہ میں زیر زمین چلا گئی۔ پناہ گاہ ایک کھلی تہہ خانے کی جگہ ہے، جو کمرے میں تقسیم نہیں ہے۔ اس میں تقریبا 170 خواتین اور بچوں سمیت 50 خاندان موجود ہیں، تمام بھوکے اور ڈرے ہوئے۔

کھڑکیوں میں شیشے بھاری شیلنگ سے ٹوٹ چکے تھے۔ سردی ظالمانہ تھی، ہماری ہڈیوں میں گھبراہٹ ہونے لگی، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ ہم نے کتنی محنت کی، ہم اپنے آپ کو گرم نہ کر سکیں۔ سردی ہمارا حصہ بن گئی، یہاں تک کہ جب میں نے پانچ سویٹر اور پتلون کے تین جوڑے پہنے، اور میرے بیٹے کے ساتھ احاطہ میں اپنے آپ کو چھپایا، میں نے پھر بھی سردی محسوس کی۔ میرے 3 سالہ بیٹے، حسام نے، میرے کان میں جاری رکھا تھا: “میں سرد ہوں، میں سرد ہوں”. میرا دل مزید ہلکا ہوا گیا۔

پانی بہت گندا تھا، اور میرے پاس میرے بیٹے کے لئے لنگوٹ بھی نہیں تھا۔ وہ 300 شامی پاؤنڈ (تقریبا 50 امریکی سینٹ) کا ایک آتا تھا۔ اس کے بجائے، میں نے ایک پلاسٹک بیگ کے ساتھ ڈھک لیا تھا جس کی قیمت تھی 800 شامی پاؤنڈ (تقریبا USD 1.55) ایک بریڈ کی قیمت جتنی۔ ہم ماؤں کے پاس ان ڈائیپر کے کپڑوں کو دھونے کے لئے اتنا پانی نہیں تھا۔ ہم نے انہیں اسی جگہ میں دھویا جہاں ہم نے برتن دھوئے، جہاں ہم نے اپنے ہاتھوں کو دھویا اور جہاں سے ہم پانی پیتے تھے۔ ہمارے بچوں کو دمہ اور آنکھوں کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بیمار بچے کا مطلب ہے کہ ہر بچہ بیمار ہو جائے گا۔ میں نے محاصرہ میں اس کو “ہماری عام زندگی” کا دعوی کیا، لیکن شیلنگ ہمارے لیے دوسری آفت تھی۔

میں پڑوس میں “الطبیہ” (“میڈیکل”) میں رہتی تھی، جہاں فیلڈ ہسپتال واقع تھا، لہذا اس لیے یہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ میں نے اپنے شوہر کے قریب ایک نرس کی حیثیت سے کام کیا، جو ڈاکٹر تھے۔ پناہ گاہ قریب ہی تھی، اور ہمیں کبھی کبھی فیلڈ ہسپتال سے کم زخمی افراد کو اس تہہ خانے میں منتقل کرنا پڑتا جب ہسپتال میں بہت ہی زیادہ ہجوم ہو جاتا، اور پھر اپنے بچوں کے سامنے زخمی بچوں کا علاج کرنا پڑتا۔ یہ غلط ہو سکتا تھا، لیکن ہمارے پاس کوئی اور انتخاب نہیں تھا۔

آپ کا اپنی ممتا کا تجربہ کیا ہے: جب آپ خوف سے روز مرہ زندگی گزارتے ہیں، مسلسل خوف میں کہ آپ کے بچے یا شوہر کے ساتھ کچھ ہو تو نہیں جائے گا، آپ ڈرتے ہیں کہ آپ کا بچہ یتیم بن جائے گا، اگر آپ کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو؟ آپ کی ممتا کا تجربہ کیا ہے: جب آپ کا بیٹا آپ سے ہر روز پوچھتا ہے: “کیا ہم آج مر جائیں گے؟ وہ ہمیں کیوں بمباری کر رہے ہیں؟” ممتا کیا ہے: جب آپ اپنے بیٹے کے لئے ” بسکٹ کا ٹکڑا ” بھی نہیں خرید سکتے، یا بچے کی سب سے بنیادی ضروریات کو یقینی نہیں بناسکتے کیونکہ وہ بہت مہنگی ہو، یا بہت دور ہو یا پھر محاصرے کی وجہ سے ہو ہی نہ؟ جب آپ خاموشی سے کھاتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ چوری کر رہے ہیں۔ آپ تب کھاتے ہوں جب وہ سو رہے ہوں۔ آپ کھائیں کیونکہ آپ اور بھوک کے ساتھ نہیں کھڑے ہو سکتے۔ جب آپ اپنے بیٹے سے جھوٹ بولتے ہیں، تو اس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سرخ اصل میں سیب ہی ہے؟

میں نے ہمیشہ صفائی کا خیال رکھا ہے لیکن آج مجھے ڈر ہے کہ میرے بیٹے کو جوں ہیں۔

جب ایک جہاز نے ہم پر بمباری کی تو میرا بیٹا میرے پاس جلدی سے بھاگ آیا، موت سے ڈرتا ہوا، دوبارہ اپنی بچگانہ دعا مانگنے لگا: “میرے خدا، برائے مہربانی میرے والد اور میری والدہ کی حفاظت کرنا۔ خدا پلیز، میری والدہ اور میرے والد کی حفاظت کریں۔” کھیل کے درمیان اپنے آپ کو تبدیل کرنا ایک عجیب چیز ہے، خوف اور رونے سے نکل کر، بار بار کھیلنا۔ وہ خاموشی کے لمحات کے دوران کھیلتے ہیں، فضائی حملوں کے قریب آنے والے خوف سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں، اور بم دھماکے پر رونے لگتے ہیں اور پھر وہ اپنے کھیلوں میں واپس آ جاتے ہیں جب دوبارہ خاموشی ہو جاتی ہے۔

ہم پناہ گاہ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ہم جانتے نہیں تھے کہ کس وقت ہارسٹا کو بم کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ شیلنگ بہت تیز، اور مسلسل دن اور رات تھی۔ خواتین اپنے بچوں کے کھانے کی تیاری کے علاوہ پناہ گاہیں نہیں چھوڑتی تھیں اور اس طرح ہم نے امِ محمد کو کھویا۔

امِ محمد میری 28 سالہ ہمسایہ دار تھی۔

شیلنگ کے ایک دن، ہم بیسمنٹ میں اپنے بچوں کو گلے لگا رہے تھے۔ گلے لگا اور دعائیں مانگ رہے تھے اپنی حفاظت کی۔ پہلے جہاز نے کہیں دور بمباری کی، اور میں نے بیسمنٹ میں اپنے اردگرد جہاں دیکھا مائیں اپنے بچوں کو چپ کروانے کے ساتھ ساتھ دعا اور رو رہیں تھیں۔

ہر کوئی خوفزدہ تھا، اور موت کا عنقریب انتظار کر رہا تھا۔ پہلی بمباری نے نے ہمارے اوپر کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ اور پھر سول دفاع، سفید ہیلمیٹ سے جانے جاتے ہیں، آئی اور ہمیں بچایا۔

ہم بچوں کو دھول کے عارضی طور پر تلاش نہیں کر سکے تھے۔ میرا بیٹا پورے دن میرے قریب تھا لیکن پہلے حملے کے بعد جب شیلنگ تھوڑی پر سکون ہو گئی لہذا اس نے شکایت کی کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ تو جب دوسرا بم گرا میں نے اسے کہیں بھی قریب نہیں پایا۔

میں نے دوسرے بچوں کے درمیان پاگلوں کہ جیسے اسے تلاش کرنے لگی: “حسام، حسام، حسام!” وہ سچ میں میری طرف اآ رہا تھا، لیکن اپنے خوف میں اسے پہچان نہ سکی۔ چند منٹ بعد ڈاکٹر نے ہم سے پوچھا: “کیا تم اس بچے کی دیکھ بھال کر سکتی ہو؟ اس کی ماں مر گئی ہے.”

میں نے اس کی طرف دیکھا اور پہچانا۔ وہ امِ محمد کا بیٹا تھا۔ امِ محمد، میری ہمسائی جو کچھ منٹ پہلے ہمارے ساتھ بیسمنٹ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے پاس کچھ کھانے کو تھا اور وہ اپنے بھوکے بچوں کو کھلانا چاہتی تھی۔ تو وہ بچوں کو لے کر پہلی منزل پر گئی تھی۔ ادھر بم گرا اور اس کو بھی مار گیا۔

ہم امِ محمد کے لئے رو رہے تھے، اور ہم ڈر رہے تھے۔ ہمیں حیرانی تھی کیا کہ ہمیں اسی قسم کی قسمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اور کیا ہمارا بچہ ماں کے بغیر فراہم کیا جائے گا؟

ہم نے اپنے بچوں کے رویے پر انحصار کرتے ہوئے، ان کی بے چینی، اور بعض اوقات ہم ایک دوسرے پر بھاپ چھوڑ دیتے، اپنے غصے کا اظہار کرتے، اپنے احساسات کو اس اس تہہ خانے میں کچلنے پر بات کرتے۔ ابتدائی طور پر، میں افراتفری پر حیران رہتی تھی جب کھانے کو پناہ گاہ میں بھیجا جاتا تھا، لیکن حال ہی میں میں بھی بالکل ان کی طرح بن گئی تھی، شاید اس سے بھی بدتر، کیونکہ میں صرف اپنے بیٹے کو کھانا کھلانا چاہتی تھی۔

ماؤں میں سے ایک نے ایک چھوٹا سا اور معمولی موقف شروع کیا، ٹافیوں اور مٹھائیوں کو فروخت کرنا شروع کیا تاکہ ہمارے بچوں کو زندہ پن محسوس کرایا جائے۔ اور ہم نے ایک گروپ کے طور پر ایک معاہدے کیا کہ ہر دن دوسرے شخص کے لئے ایک ٹافی خریدیں گے۔ اور اگر ہم میں سے ایک بھی مارا جائے تو، ہمیں اس کی روح کی یاد دلانے کے لۓ اس کی ٹافی بھی خریدنا پڑے گی۔

ہماری شام کا ایک اچھا حصہ تصور نے لے رکھا تھا۔ عجیب یا ایک شاندار نوعیت کا تصور نہیں بلکہ زیادہ تر ہم اپنے سوالات کے جوابات کا تصور کرنے کی کوشش کرتے تھے: کیا ہم پھر کسی دن اپنے والدین کو دیکھ سکیں گے؟ کیا وہ ہمارے بچوں کو دوبارہ دیکھ سکیں گے؟ کیا ہمارے بچوں ایک بار پھر دوسرے بچوں کی طرح کھیلنے کے قابل ہو جائیں گے؟ مستقبل میں، کیا وہ جان پائیں گے کہ کیلے کیا ہیں؟

ایک بار میں نے اپنی ہمسائی سے پوچھا: کیا ہم واقعی زندہ ہیں؟کیا دوسروں کو معلوم ہے کہ ہم اصل میں موجود ہیں، اور یہ کہ ہم تہہ خانے میں زندہ ہیں؟