مشرقِ وسطی کا تنازعہ سنیوں اور شیعوں کے درمیان نہیں ہے اور نہ ہی یہ صدیوں پرانا ہے

Distribution of Sunni and Shia Islam in the Middle East and North Africa. Photo by Peaceworld111 on Wikipedia, used under CC BY-SA 4.0

مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں سنی اور شیعہ اسلام کی تقسیم۔ تصویر بشکریہ وکیپیڈیا

اپنے ایک اسٹیٹ آف یونین کے خطاب میں بارک اوباما نے کہا کہ مشرق وسطی کے تنازعات صدیوں پرانے ہیں۔ ایک عرب محقق نے اپنی تحقیق سے یہ بات اوباما کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس تنازعہ کا ایک رخ جسے شیعہ سنی تنازعہ کہا جاتا ہے وہ کوئی قدیم تنازعہ بالکل نہیں۔

“The Middle East is going through a transformation that will play out for a generation, rooted in conflicts that date back millennia,” Obama said.

“مشرق وسطی عملِ تغیر سے گزر رہا ہے جسے مکمل ہونے میں وقت لگے گا کیوں کہ یہ تنازعات صدیوں سے چلے آ رہے ہیں،” اوباما نے اپنے خطاب میں کہا

فلسطینی لکھاری، عاجر، اور بہار عرب کے کارکن لیاد البغدادی نے اپنی ٹویٹس کی سیریز جس کا عنوان تھا نام نہاد “قدیم” شیعہ سنی تنازعہ میں تاریخ سے لی گئی مثالوں سے یہ بات ثابت کی کہ ایک ایسا وقت بھی رہا ہے کہ جب سیاست دانوں اور علماء کے لئے فرقہ موضوع یا مسئلہ نہیں تھا۔

19ویں صدی کے اواخر میں جاری نوآبادیاتی نظام کے خلاف اسلامی احیا کی تحریک میں شیعہ عالم ال افغانی ایک اہم کارکن تھے۔

ال افغانی کے شاگرد اور کوئی نہیں بلکہ سنی عالم محمد عبدوہ تھے جو کہ بعد میں مصر کے مفتیِ عظم بھی بنے۔

سنی عالم عبدوہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ نہج البلاغہ جو کہ ایک اہم شیعہ ریفرنس کتاب ہے پر تبصرہ کرنا تھا

1931 میں یروشلم میں جاری سامراج مخالف کانفرنس کے دوران ایک عراقی شیعہ عالم کاشف ال غتہ نے مسجد اقصی میں سنی علماء کی نماز میں امامت کی۔

1940 کی دہائی میں وجود میں آنے والی سنی ریساست، پاکستان کے بانی جناح ایک شعیہ مسلمان تھے۔

1950 کی دہائی کے دوران عراق میں ہونے والی مردم شماری کے دوران اکثر لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے فرقہ کے جواب میں سنی لکھنا ہےیا شیعہ کیونکہ ان میں سے اکثر دونوں ہی تھے۔

1958 میں مصر کے مفتی اعظم نے اعلان کیا کہ جامعہ  الازہرمیں فقہہ شیعہ کی تعلیم چار سنی فقہا کے ساتھ بطور پانچواں فقہہ دی جائے گی۔

1960 کی دہائی میں سنی سعودی عرب نے یمن میں جاری خانہ جنگی میں مصر کے حمایت یافتہ ریپبلکنز کے خلاف زیدی شیعہ کی حمایت کی

1980 کی دہائی میں جاری عراق ایران جنگ میں لڑنے والی عراقی فوج کے بیشتر فوجی عرب شیعہ تھے۔

1990 اور 2000 کی دہایوں میں عراقی اہل تشیعہ نے سنی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی حمایت کی۔

ال بغدادی نے مزید کہا کہ “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی درار دراصل سیاسی ہے مزہبی نہیں۔ اور اس خطہ میں جاری اقتدار کی جدوجہد کے لیے جان بوجھ کرفرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ اپنے ٹویٹ میں بغدادی نے کہا:

موجودہ صورتحال فرقوں کا تصادم نہیں بلکہ اقتدار کی ہوس میں قصداً پیدا کی گئی فرقہ واریت ہے۔

بغدادی کے مطابق اس تقسیم سے صرف ظالموں کو فائدہ ہوا ہے اور فرقہ واریت نے حصول اقتدار کے لئے ہتھیار کا کام دیا ہے۔

اقتدار کے بھوکے نظریاتی طور پر نہ تو سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ بلکہ یہ تو ضرورت پڑنے پر بخوشی اس تقسیم کا استحصال کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اب ایک عملی چیز بن چکی ہے۔ نفرت و شرپسند عناصر اس کام میں آلہ ثابت ہوتے ہیں اسی لئے وہ میڈیا اور ٹی وی سٹار بن جاتے ہیں۔

در حقیقت، میں پرانی الہیاتی درار اور فرقہ وارانہ اختلافات کو تسلیم کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی میں یہ بات بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سیاسی ہتھیار کے طور پر پہلے سے زیادہ اب استعمال ہو رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ خطہ میں فرقہ واریت بڑھ چکی ہے، یہ بھی درست ہے کہ اختلافات اصلی ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں کہ موجودہ جنگ ایک قدیم الہیاتی تنازعہ کا تسلسل ہے

کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کافی بے ضرر، دنیاوی اور خاص طور پر مہلک نہیں تب تک جب تک انہیں طاقت کے حصول کے لئے بطور ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.