اپنے ایک اسٹیٹ آف یونین کے خطاب میں بارک اوباما نے کہا کہ مشرق وسطی کے تنازعات صدیوں پرانے ہیں۔ ایک عرب محقق نے اپنی تحقیق سے یہ بات اوباما کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس تنازعہ کا ایک رخ جسے شیعہ سنی تنازعہ کہا جاتا ہے وہ کوئی قدیم تنازعہ بالکل نہیں۔
“The Middle East is going through a transformation that will play out for a generation, rooted in conflicts that date back millennia,” Obama said.
“مشرق وسطی عملِ تغیر سے گزر رہا ہے جسے مکمل ہونے میں وقت لگے گا کیوں کہ یہ تنازعات صدیوں سے چلے آ رہے ہیں،” اوباما نے اپنے خطاب میں کہا
فلسطینی لکھاری، عاجر، اور بہار عرب کے کارکن لیاد البغدادی نے اپنی ٹویٹس کی سیریز جس کا عنوان تھا نام نہاد “قدیم” شیعہ سنی تنازعہ میں تاریخ سے لی گئی مثالوں سے یہ بات ثابت کی کہ ایک ایسا وقت بھی رہا ہے کہ جب سیاست دانوں اور علماء کے لئے فرقہ موضوع یا مسئلہ نہیں تھا۔
In the late 19th century, Shiite scholar Al Afghani was a prominent member of the anti-colonialist, pan-Islamic revival movement.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
19ویں صدی کے اواخر میں جاری نوآبادیاتی نظام کے خلاف اسلامی احیا کی تحریک میں شیعہ عالم ال افغانی ایک اہم کارکن تھے۔
Al Afghani's disciple was none other than prominent Sunni scholar Mohammad Abduh, who would later become Egypt's Grand Mufti.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
ال افغانی کے شاگرد اور کوئی نہیں بلکہ سنی عالم محمد عبدوہ تھے جو کہ بعد میں مصر کے مفتیِ عظم بھی بنے۔
One of the Sunni Abduh's lasting works was his commentary on Nahj al Balagha, one of most important Shia references.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
سنی عالم عبدوہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ نہج البلاغہ جو کہ ایک اہم شیعہ ریفرنس کتاب ہے پر تبصرہ کرنا تھا
In 1931, Iraqi Shia cleric Kashif al Ghita led Sunni clerics in prayers in Al-Aqsa mosque in Jerusalem, at an anti-imperialist conference.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1931 میں یروشلم میں جاری سامراج مخالف کانفرنس کے دوران ایک عراقی شیعہ عالم کاشف ال غتہ نے مسجد اقصی میں سنی علماء کی نماز میں امامت کی۔
In the 1940s, Pakistan, a majority Sunni state, was founded by Jinnah, a Shiite Muslim.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1940 کی دہائی میں وجود میں آنے والی سنی ریساست، پاکستان کے بانی جناح ایک شعیہ مسلمان تھے۔
In the early 1950s people answering the Iraq census didn't know whether to pick “Sunni” or “Shia” coz many were mixed.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1950 کی دہائی کے دوران عراق میں ہونے والی مردم شماری کے دوران اکثر لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے فرقہ کے جواب میں سنی لکھنا ہےیا شیعہ کیونکہ ان میں سے اکثر دونوں ہی تھے۔
In 1958, Egypt's Grand Mufti declared that Shiism will be taught in Al Azhar as the fifth school alongside Sunni schools of jurisprudence.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1958 میں مصر کے مفتی اعظم نے اعلان کیا کہ جامعہ الازہرمیں فقہہ شیعہ کی تعلیم چار سنی فقہا کے ساتھ بطور پانچواں فقہہ دی جائے گی۔
In the 1960s Sunni Saudi Arabia supported the Zaydi Shias in Yemen in a civil war against Egypt-supported Republicans.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1960 کی دہائی میں سنی سعودی عرب نے یمن میں جاری خانہ جنگی میں مصر کے حمایت یافتہ ریپبلکنز کے خلاف زیدی شیعہ کی حمایت کی
In the 1980s, the majority of the Iraqi army fighting Iran in the Iraq-Iran war was made up of Arab Shias.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1980 کی دہائی میں جاری عراق ایران جنگ میں لڑنے والی عراقی فوج کے بیشتر فوجی عرب شیعہ تھے۔
In the 1990s & 2000s, Shiite Iran supported Sunni Palestinian militant group Hamas.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
1990 اور 2000 کی دہایوں میں عراقی اہل تشیعہ نے سنی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی حمایت کی۔
ال بغدادی نے مزید کہا کہ “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی درار دراصل سیاسی ہے مزہبی نہیں۔ اور اس خطہ میں جاری اقتدار کی جدوجہد کے لیے جان بوجھ کرفرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ اپنے ٹویٹ میں بغدادی نے کہا:
The current dynamic isn't a conflict of sectarianism but a willful and cynical sectarianization of a regional power struggle.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
موجودہ صورتحال فرقوں کا تصادم نہیں بلکہ اقتدار کی ہوس میں قصداً پیدا کی گئی فرقہ واریت ہے۔
بغدادی کے مطابق اس تقسیم سے صرف ظالموں کو فائدہ ہوا ہے اور فرقہ واریت نے حصول اقتدار کے لئے ہتھیار کا کام دیا ہے۔
Tyrants are rarely ideologically committed to Sunnism or Shiism; but are happy to exploit either when it's expedient.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
اقتدار کے بھوکے نظریاتی طور پر نہ تو سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ بلکہ یہ تو ضرورت پڑنے پر بخوشی اس تقسیم کا استحصال کرتے ہیں۔
Sectarianization became the pragmatic thing to do. Hatemongering ideologues became useful and hence became stars on TV and media.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
فرقہ واریت اب ایک عملی چیز بن چکی ہے۔ نفرت و شرپسند عناصر اس کام میں آلہ ثابت ہوتے ہیں اسی لئے وہ میڈیا اور ٹی وی سٹار بن جاتے ہیں۔
Fact is, I acknowledge the old theological rift and the communal differences but I emphasize their modern political weaponization.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
در حقیقت، میں پرانی الہیاتی درار اور فرقہ وارانہ اختلافات کو تسلیم کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی میں یہ بات بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سیاسی ہتھیار کے طور پر پہلے سے زیادہ اب استعمال ہو رہے ہیں۔
Has the region been sectarianized? Yes. Are the differences real? Yes. Is the current war posturing an ancient theological dispute? No.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
یہ درست ہے کہ خطہ میں فرقہ واریت بڑھ چکی ہے، یہ بھی درست ہے کہ اختلافات اصلی ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں کہ موجودہ جنگ ایک قدیم الہیاتی تنازعہ کا تسلسل ہے
Many theological and communal differences are innocuous, mundane, and not particularly deadly, until they are weaponized for power.
— Iyad El-Baghdadi (@iyad_elbaghdadi) January 13, 2016
کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کافی بے ضرر، دنیاوی اور خاص طور پر مہلک نہیں تب تک جب تک انہیں طاقت کے حصول کے لئے بطور ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔