ویتنامی محبت سے بھرپور ایک عالمی چٹننی – سریراچا

Sriracha Hot Chili Sauce. Photo from the Flickr page of Mike Mozart, CC License

سریراچا چٹنی کی بوتل۔ مائیک موزارٹ کے فلِکر سے لی گئی تصویر۔

یہ تحریر ویتنام کے حوالے سے خبروں کی ویب سائیٹ لاؤ کے لیے چی لینھ ڈنھ نے لکھی ہے اور اس کو مواد کی شراکت کے معادہ کے زیر اثر یہاں بھی شائع کیا جا رہا ہے۔ 

میں ٹورانٹو، کینیڈا کے ایک مقامی ریستوران بانھ می بواءز پر ہوں۔ رات کافی ہو چکی ہے اور مجھے بھوک محسوس ہو رہی ہے میرے دوست اور میں نے بانھ می کا آرڈر دیا ہے جس پر سریراچا چٹنی خوب اچھی طرح ڈالی ہوتی ہے۔

اگر آپ نہیں جانتے تو سریراچا ایک تیکھی چٹنی ہے جو بوتل میں ملتی ہے، اس کی بوتل اپنے مخصوص سبز ڈھکن اور بوتل پر بنے مرغ کی تصویر سے پہچانی جاتی ہے۔ میں اس چٹنی کو ہر کھانے کے ساتھ ستعمال کرتا ہوں اور کئی بار تو ایسے کھاجہ کے ساتھ بھی کہ جس کے ساتھ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس ہالووین پر میں نے سریراچا کی بوتل کا ہی روپ دھارا تھا۔ میں اکیلا ہی ایسا نہیں کہ جو اس چٹنی کے عشق میں مبتلا ہو۔

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ چٹنی ایشیاء سے برآمد کی جاتی ہے۔ لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ سریراچا نام کا ایک شہر بھی ہے۔ سریراچا پر ڈاکومنٹری فلم بناننے والے ڈائریکٹر گرفن ہموند کا اس چٹنی کی تاریخ اور شہرت کے حوالے سے کہنا ہے کہ

Yeah in the film we went to Thailand to kind of find out the story of the original. The sauce, I don’t know what it’s like in Vietnam, but in Thailand it was much runnier, a lot sweeter, and different consistency and kind of seemed like it went with different things too—similar ingredients, of course.

یہ درست کے کہ ہم اس چٹنی کے ماخز کو ڈھونڈھتے ہوئے تھائی لینڈ تک پہنچے۔ ویت نام میں اس چٹنی کو کیا کہا جاتا ہے یاد نہیں۔ لیکن تھائی لینڈ میں پائی جانے والی چٹنی پتلی، قدرے میٹھی, اور غیر مستقل مزاج ذائقہ کہ تھی۔ اس کی ترکیب تو ایک ہی تھی لیکن یہ چٹنی ہر طرح کے کھانے کے ساتھ استعمال ہو جاتی تھی۔

ہموند نے سریراچا کی ماڈرن تاریخ، جو کہ ڈیوڈ ٹران اور اس کے امریکی سفر سے شروع ہوتی ہے، کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا:

He was in Vietnam and he one of the many ethnically Chinese people that were sent out out of country, kinda pushed out of Vietnam after the war, and he was asked to get on a boat, called the Huey Fong.

وہ ویتنام میں تھا اور اس کا تعلق اس چینی نسل سے تھا کہ جن کو ویتنام جنگ کے بعد ان کے ملک سے نکال دیا گیا۔  اسے ہوئے فانگ نامی کشتی پر سوار ہونے کا حکم ملا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیوڈ ٹران نے بعد میں اپنی کمپنی کا نام بھی ہوئے فانگ ہی رکھا۔ ہموند کا کہنا ہے:

There were 3,300 refugees on this boat, and finally after a month of living on this boat, Hong Kong relented, let them stay there for a little bit, and the UN relocated all these people and I think a large number them landed in the US.

اس کشتی میں 3300 پناہ گزین موجود تھے اور ایک ماہ کشتی میں سوار رہنے کے بعد انہیں چند دن ہانگ کانگ میں رہنے کو ملے۔ اقوام متحدہ نے ان افراد کی آباد کاری کی اور ان میں سے بہت سے لوگ امریکہ میں آ کر آباد ہوئے۔

ڈیوڈ ٹران خالی جیب بوسٹن پہنچا اور پھر کسی نہ کسی طرح لاس اینجلس جا پہنچا۔

ہمود اس بارے میں بتاتے ہیں:

When he was there, he was looking for a job and couldn’t really find anything he liked, but saw that a lot of Vietnamese people that wanted—they were eating phở and they didn’t have any hot sauce, like that from back home, and he just saw a market there and thought, ‘I could make some hot sauce,’ and that’s how he started making Sriracha.

جب وہ وہاں تھا تو اس نے نوکری کی کافی تلاش کی لیکن اسے کوئی بھی کام اپنی طبیعت کے مطابق نہ ملا۔ لیکن اس نے وہاں بہت سے ویت نامی دیکھے کہ جو پھو کھا رہے تھے لیکن ان کے پاس کوئی بھی ایسی تیکھی چٹنی نہ تھی کہ جیسے ان کے دیس میں پائی جاتی تھی۔ ایسے میں ڈیوڈ کا گزر ایک مارکیٹ سے ہوا تو اس نے سوچا کہ میں خود بھی تو تیکھی چٹنی تیار کر سکتا ہوں۔ اور ایسے اس نے سریریچا تیار کرنا شروع کی۔

1980 میں شروع ہونے والا ٹران کا چھوٹا سا کاروبار اب بہت پھل پھول گیا ہے۔

مشرقی لاس اینجلس مٰن آئرونڈیل کے مقام پر ایک بڑی فیکٹری قائم ہے جہاں دنیا بھر کے لئے یہ ہردلعزیز چٹنی تیار کی جاتی ہے۔ اور اگر آپ چاہیں تو اپنے لئے فیکٹری کا دورا بھی بک کر سکتے ہیں اور تیاری کے تمام مراحل کا از خود کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

سریراچا کی تاریخ کافی پیچیدہ ہے اس کو دوبارہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک چینی ویتنامی نے امریکہ آنے کے بعد یہ چٹنی تیار کرنا شروع کی۔ یہ چٹنی در حقیقت تھائی لینڈ کے سریراچا سے متاثر ہے لیکن اس کا ذائقہ ویسا نہیں ہے۔

لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ چٹنی بیشتر ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ بات کافی دلچسپ ہے اور سمجھ بھی آتی ہے کہ جب خیالات اور کھانے سرحدوں کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اور یہ گلوبلائیزیشن کا ہی کمال ہے کہ ڈیوڈ ٹران کے ویتنام میں سریراچا بیچے بغیر بھی  یہ چٹنی ویت نام میں کافی مقبعل ہ چکی ہے۔

ایشیاء میں کاروبار سے منسلک وکٹر نگویان کا کہنا ہے کہ:

So I go back to Vietnam —I go to Asia maybe like once or twice a year on my schedule, and in the last few years, I’ve noticed that, whenever I post a message on Facebook or maybe like email my friends asking them if they want anything from California, or from LA, the number one answer is Sriracha sauce. This past trip, where I went in September, my entire check-in luggage was all Sriracha sauce. It was all literally, I think, I had about 15 bottles in my luggage.

میرا سال میں ایک دو بار ویت نام اور ایشیا کام کے سلسلہ میں جانا ہوتا ہے۔ اور جب میں فیس بک پر اسٹیٹس لگا کر یا ای میل میں اپنے احباب سے دریافت کرتا ہون کہ اگر ان کو کیلیفورنیا یا ایل اے سے کچھ درکار ہے تو جواب میں ہمیشہ سریراچا چٹنی کی فرمائش سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔ حال ہی میں جب ستمبر میں میرا جانا ہوا تو میرا سامان اس چٹنی کے ڈبوں سے بھرا ہوا تھا۔ میرے پاس تقریباً پندرہ بوتلیں تھیں۔

15 بوتلیں واقعی مزاق نہیں۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ ثقافتوں کے اس ملاپ سے سریراچا واقعی ایک عالمی چٹنی بن گئی ہے اور وہ بھی ویتنامی محبت کے 15 بھرے ہوئے بڑے چمچوں کے ساتھ۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟

اچھا تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ ہاں، میں بانھ می اور سریراچا چٹنی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اور اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کس چیز کے ساتھ یہ چٹنی استعمال کرنا پسند کرتے ہیں؟

ریستوران کے ملازم کا جواب پیزا تھا۔

اب ہمیں چلنا چاہیئے کیونکہ ریستوران میں کھانا کھانے کے لئے آنے والوں کا رش بڑھنے لگا ہے۔

سریراچا کے حوالہ سے پاڈ کاسٹ سنیں:

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.