- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

مقبول پاکستانی قوال امجد صابری کا دن دہاڑے قتل

زمرہ جات: جنوبی ایشیاء, پاکستان, - شہری میڈیا., انسانی حقوق
maxresdefault [1]

Amjad Sabri sings at a concert in February 2012 in Trafo, Budapest. Screenshot from YouTube

پاکستان کے مقبول قوال امجد صابری کو دن دہاڑے کراچی شہر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ امجد صابری کے قتل سے ملک بھر میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ قوالی [2]صوفی موسیقی کی ایک مقبول قسم ہے جو کہ جنوبی ایشیاء میں بہت مشہور ہے۔

پولیس کے مطابق یہ قتل [3]ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کا واقع ہے۔ بدھ کی دوپہر 45 سالہ امجد صابری کی گاڑی کو موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے لیاقت آباد کے علاقہ میں روک کر پانچ گولیاں ماری گئیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہوئے ایک گروہ کے ترجمان قاری سیف اللہ محسود نے حملہ کی ذمہ داری کا اعلان کیا۔

امجد صابری کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا، ان کے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول صابری نے 1950 میں ایک معروف قوالی گروپ کا آغاز کیا اور اپنی شاعری اور مخصوس انداز کی وجہ سے بہت شہرت پائی۔

امجد صابری خاندان کی روائت کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ نصرت فتح علی خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قوالی کو موسیقی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے بھی متحرک تھے۔

امجد صابری کے رمضان جیسے مقدس مہینہ میں ایسے بیہمانہ قتل کے بعد پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔

گلوکار، موسیقار، اور پاکستان سینسر بورڈ کے سربارہ فخرِ عالم [4] نے ٹویٹر [4]پر کہا:

قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ ہائی لیول کی میٹنگز سب دکھاوا ہے۔ یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ میرا دل ٹوٹ چکا ہے اور میں بیزار ہو چکا ہوں۔

صحافی و ناشر نجم سیٹھی [5] نے اپنے دکھ کا اظہار ٹویٹر پر ان الفاظ میں کیا [6]:

امجد صابری کا قتل ایک عظیم سانحہ ہے۔ اس کی آواز دنیا بھر میں دلوں اور روحوں کو چھو جایا کرتی تھی۔ ہمیں ان قاتلانہ دہشتگردوں کی وجہ سے بے حس ہونے سے بچنا ہو گا۔

جیسے ہی قتل کی خبر منظر عام پر آئی واقعہ کی پر تشدد تصاویر اور ویڈیوز بھی آن لائن نشر کی جانے لگیں۔ سماجی کارکن جبران ناصر [7] نے اس حوالے سے احتیاط [8]برتنے کا کہا:

براہ مہربانی امجد صابری اور ان کے گھر والوں کا کچھ خیال کریں۔ ان تصاویر اور ویڈیوز کو کی ترسیل بند کریں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ وہ ایک بڑا آدمی تھا جو اپنی آواز سے لاکھوں دلوں میں سماتا تھا۔

مزاحیہ فنکار شہزاد غیاث شیخ [9] نے سبین محمود جنہیں گزشتہ برس ہلاک کر دیا گیا تھا کو یاد کرتے ہوئے اپنی ایک تحریر [10]میں کہا:

“ملک تو جنگ سے جیتے جا سکتے ہیں لیکن ایک قوم کو اگر ہرانا ہے تو اس کے لئے فنکاروں، دانشوروں، علماء اور محبت بانٹنے والوں کو مارنا پڑتا ہے۔ امجد صابری کو شہر کی سڑکوں پر بے رحمی سے مار دیا گیا اور اس پر دکھ بھرے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن بہت چلد امجد صابری بھی ایک ہندسہ ہو گا اس فہرست کا کہ جس میں ان لوگوں کے نام درج ہیں جو بغیر کسی وجہ کے مارے گئے۔

انہی گلیوں میں سبین محمود کا قتل ہوا، وسیم اکرم کی گاڑی پر گولی چلی اور حامد میں قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہوئے۔ یہ تو بس وہ واقعات ہیں جو ریپورٹ ہوئے۔ ان سے کہیں بڑی تعداد تو ریپورٹ ہی نہیں ہوتیں۔ پاکستان کے ایک مقبول اداکار کو حال ہی میں تاوان کے لئے اغواء کیا گیا۔ ابھی کل ہی سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو اغوا کیا گیا۔

کیا ہم قوم کو یقین دلا سکتے ہیں کہ کراچی ایک محفوظ شہر ہے؟ کب تک ہم اپنے آپ کے ساتھ ایک نام نہاد ساکھ کو بچانے کے لئے جھوٹ بولتے رہیں گے؟

میڈیا سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو قتل کی دھمکیاں سوشل میڈیا پر دی جاتی ہیں۔ اگر کسی پاگل نے ان دھمکیوں کو حقیقت کا روپ دے دیا تو کیا ہوگا؟

ہم نے کچھ کیا جب امجد صابری کو جیو اور اے آر وائی کی باہمی جنگ میں ایک قوالی کی وجہ سے مذہبی توہین کا مرتکب قرار دیا گیا اور اور لاتعداد قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

ہم نہیں جانتے کہ امجد صابری کو کیوں قتل کیا گیا۔ لیکن درحقیقت کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟

فنکار برادری کے ایک رکن کی حیثیت سے میں پوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اس ملک میں شائد ہی کوئی فنکار ایسا ہو کہ جسے کسی نہ کسی وجہ سے قتل کی دھمکی نہ ملی ہو۔

پاکستان میں جو فنکار گولی سے نہیں مرتا وہ ہماری بے حسی سے مر جاتا ہے۔ حبیب جالب اور مہدی حسن اس لئے مارے گئے کہ وہ اپنا علاج کرانے کے مالی قوت نہیں رکھتے تھے۔ اس بات کو ہضم کرنے کی کوشش کریں۔

ہم آج اس ملک میں زندہ ہیں کہ جہاں امجد صابری آج ہم میں نہیں اور اور سوشل میڈیا پر لوگ اس کی خون میں لت پت لاش کی تصاویر اور جائے وقوعہ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر لگا رہے ہیں۔

اگر آپ یہ وجہ جاننا چاہتے ہیں کہ امجد صابری کیوں مرا۔ تو وہ آپ کو ایک بھی وجہ نہیں ملے گی، اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ ایسا کیوں ہوا تو بس اتنا کہہ دیں۔۔۔ پاکستان۔”

اس واقعہ کے رد عمل میں حکومتِ پاکستان کی جانب مشتبہ افراد کی گرفتاری عمل میں آئی اور وعدہ کیا گیا کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ واقعے کے بعد وزیرِ اعلی سندھ قائم علی شاہ نے لیاقت آباد کے ایس ایچ او اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو معطل کر دیا۔

مشہور موسیقار سلمان احمد [11] بے حسی پر مایوسی کا اظہار ٹیوٹ [12]میں کیا:

وزیرِ اعظم اور سندھ کی حکومت امجد صابری کے قتل پر رنجیدہ ہیں۔۔۔ کیا ہم سب قربانی کے بکرے ہیں؟ نہ ہی تو کوئی قیادت ہے، نہ کوئی منصوبہ اور اہلیت صفر۔

امجد صابری کے قتل شائد پکڑے جائیں کیوں کہ قانون نافظ کرنے والے اداروں پر اس وقت بہت دباؤ ہے۔ لیکن جو دیوار پر تحریر ہے وہ ایک بار پھر سے واضح ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ تشدد اور بنیاد پرستی کے پاگل پن کے حملوں کی وجہ سے اس ملک میں فن اور ثقافت کے لئے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔