- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

کڑے یونیورسٹی ہوسٹل اصولوں سے تنگ بھارتی خواتین کو ملی PinjraTod# [پنجرہ توڑ] سے آواز

زمرہ جات: جنوبی ایشیاء, بھارت, - شہری میڈیا., انسانی حقوق, ترقی, تعلیم, تقریر کی ازادی, ڈیجیٹل سرگرمی, سیاست, مظاہرے

Image Courtesy - "Pinjra Tod : Break The Hostel Locks" Facebook page [1]

امبیدکر یونیورسٹی میں قائم ایک PinjraTod# [پنجرہ توڑ] سٹال۔ تصویربشکریہ “پنجرہ توڑ بریک دی ہوسٹل لاکز” فیس بک پیج

[اس مضمون میں شامل تمام ویب لنکس انگریزی زبان کے مضامین تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔]

9 ستمبر 2015 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اورآس پاس کے طلبہ ہوسٹلزکی دیواروں پہ ایسے سینکڑوں پوسٹر چسپاں تھے جن پہ یہ الفاظ لکھے تھے: “پنجرہ توڑ”۔ اس مہم [2] کا مقصد ان تعلیمی اداروں کے جنسی تعصب کو نمایاں کرنا ہے جہاں طالبات کیلئے یونیورسٹی رہائش کے اصول مختلف ہیں۔

مثال کے طور پہ پچھلے برس جون میں دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے گرلز ہوسٹل نے 8 بجے کرفیو کا اجراء [3] کیا۔ اس مقررہ وقت کے بعد ہوسٹل سے باہر رہنے کیلئے طالبات پر یہ لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے مقامی نگران یا سرپرست کی طرف سے تحریری اجازت نامہ [4] ہوسٹل انتظامیہ کوجمع کرائیں۔ اگر کوئی طالبہ اس اصول کو نہ مانیں تو اسکے یونیورسٹی رہائش کے حقوق منسوخ کیۓ جا سکتے ہیں۔

اس کرفیو کے اجراء کے بعد دہلی کمیشن فار ویمن نے ایک نوٹس جاری کیا [5]جس میں ایسے اخلاقی ضوابط کے نفاذ کوچیلنج کیاجن کااطلاق صرف خواتین ہوسٹلز پہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی ہوسٹلز نے اپنے دفاع میں یہ دلیل پیش کی کہ ان قوانین کو خواتین کی حفاظت کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ نافذ کیا گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بیان دیا ہے کہ وہ جنسی برابری کو قائم رکھنے کیلئے اپنی پالیسیوں کا جائزہ [6] لے گی۔

“میرے حقِ برابری کی واضح خلاف ورزی”

جیسا کہ “پنجرہ توڑ: بریک دی ہوسٹل لاکز [7]” [ہوسٹل کے تالے توڑ] فیس بک پیج پر اپ لوڈ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے، PinjraTod# [8] [پنجرہ توڑ] مہم پورے بھارت میں خواتین کیلئے قائم یونیورسٹی ہوسٹلز کے کئی رہائشیوں کے دلوں میں گونجی ہے۔ طلبہ نے یہ کہتے ہوۓ احتجاج کیا ہے کہ یہ قوانین انکے جمہوری حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

A poster of #PinjraTod Campaign. Image courtesy Facebook page [9]

PinjraTod# مہم کا ایک پوسٹر۔ تصویر بشکریہ فیس بک پیج

یوتھ کی آوازکے ایک گمنام طالب علم نے جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر کے نام ایک کھلا خط [3] لکھا:

This difference in the hostel rules is a clear violation of my Right to Equality, bestowed to me in Article 15 of the Constitution, which prohibits the state from discriminating any citizen on the grounds of religion, race, caste, sex or place of birth. Making it mandatory for adult women to enter the hostel premises by 8.00 pm and making them get signed permission from their local guardians or parents 24 hours in advance, every time they decide to come late or take a leave, is a blatant violation of my Right to Freedom, which protects my life and personal liberty in Article 21 of the Constitution.

ہوسٹل کے قوانین میں یہ فرق میرے حقِ برابری کی واضح خلاف ورزی ہے۔ وہ حق جو مجھے آئین کے آرٹیکل 15 میں دیا گیا ہے، جس کے تحت ریاست کو مذہب، نسل، برادری، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پہ کسی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے سے منع کیا گیا ہے۔ بالغ عورتوں پہ یہ واجب کر دیا جائے کہ وہ 8 بجے تک ہوسٹل کی حدود میں داخل ہو جائیں اور ہر مرتبہ جب وہ دیر سے آئیں یا چھٹی لینے کا فیصلہ کریں تو انہیں 24 گھنٹے پہلے مقامی سرپرست یا والدین سے دستخط شدہ اجازت نامہ جمع کرانا پڑے، یہ میرے حقِ آزادی کی صریحاّ خلاف ورزی ہے جوآئین ۔کے آرٹیکل 21 میں میری زندگی اور ذاتی آزادی کی حفاظت کرتا ہے

اس سے پہلے ستمبر میں ممبر پارلیمنٹ اور سابقہ ریاستی وزیر ڈاکٹر ششی تھرور نے دی کالج آف انجینرئنگ تریواندم کے سخت قوانین کو ایک ٹویٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا:

انڈیا میں گرلز ہوسٹلز کے جبری قوانین: میں کالج آف انجینرئنگ تریواندم کی خواتین کے احتجاج کی حمایت کرتا ہوں

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) لبریشن کی ایک ممبر کویتا کرشنن نے امبیدکر یونیورسٹی آف دہلی کے ہوسٹلز میں “ہم جنس پرست چال چلن” کے ضوابط کی مذمت کی:

اچھا، اب امبیدکر یونیورسٹی دہلی کا کہنا ہے کہ کیمپس پہ “کوئی ہم جنس پرست چال چلن نہیں” !!! اور بھی زیادہ #CampusPrisons [ کیمپس جیلیں] جو کہ۔۔۔

ایک انتہائی نوعیت کے کیس میں کہا جاتا ہے کہ شری سائرام انجینرئنگ کالج نے 14 قواعد پہ مبنی ایک مجموعہ پھیلایا [15] جو کہ خاص طور پہ طالبات کیلئے بنایا گیا تھا۔ ان قواعد میں لباس کے اصول مثلاّ لیگنگ، تنگ پتلون یا بلاؤزپہننے کی ممانعت، اونچی ہیل نہ پہننے، بالوں کو رنگنے اور بڑی ڈیزائنر گھڑیاں پہننے پر پابندی، اور ملنے جلنے پہ پابندیاں جیسے کہ کیمپس پہ کسی قسم کے جشن کی ممانعت، بانٹنے کی غرض سے بڑی مقدار میں مٹھایاں لانے پر پابندی اور فیس بک اور واٹس ایپ پہ اکاؤنٹ کھولنے کی ممانعت شامل تھیں۔

شری سائرام انجینرئنگ کالج چنائے کی لڑکیوں کیلئے پابندیوں کی فہرست۔ کیونکہ لڑکیاں طالب علم نہیں بھٹکاوے ہیں؟

یہ پہلی دفعہ نہیں ہے جب طالب علموں نے قواعد کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ 2010 میں ایک غیر تدریسی اسٹاف ممبر کے دو طالب علموں پر حملے کے بعد طالب علموں نے احتجاج [18] کیا تھا۔ جیل کی مانند ضوابط نافذ کرنے پر کالج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے کی اطلاعات ہیں۔ حالانکہ شری سائرام کالج کے سربراہ نے قوائد کے مجموعہ کی اشاعت و تقسیم کو رد کیا ہے، کالج کے فارغ التحصیل طلبہ نے ایسے قواعد کے وجود کی تصدیق کی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ والدین کو راضی کرنے کیلئے تامل ناڈو کے کئی انجینرئنگ کالجوں میں ایسے امتیازی “ڈسپلنری” قوانین موجود ہیں۔

پنجرہ توڑ کی قوت میں اضافہ

یوتھ کی آواز پہ لکھتے ہوۓ شامبھوی سکسینہ [2] :نے پنجرہ توڑ مہم کے ممکنہ مقاصد پہ بحث کی ہے

The Pinjra Tod movement, comprised of women from colleges in Delhi University, Jamia Milia Islamia, Ambedkar Univeristy, National Law University and Jawaharlal Nehru University, grew out of a simple Facebook page [19], where female hostel and PG residents began sharing their bitter experiences with guards, wardens, principles, landlords and the like. What is clear from all these stories is the need for an all-out rejection of these restrictive rules and the patriarchal protectionism they are built on.

دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، امبیدکر یونیورسٹی، نیشنل لاء یونیورسٹی اور جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے کالجوں کی خواتین پہ مبنی یہ پنجرہ توڑ مہم ایک سادہ فیس بک پیج [19] سے شروع ہوئی جہاں خواتین ہوسٹل اور پوسٹ گریجویٹ رہائشیوں نے محافظوں، وارڈنز،پرنسپلوں، مالک مکانوں اور دیگر کے ساتھ ہونے والے اپنے تلخ تجربات بانٹنے شروع کیۓ۔ ان سب کہانیوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ روک تھام کے ان قوانین اور ان کی بنیاد بننے والے پدرشاہی حفاظتی اصولوں کو مکمل طور پہ رد کر دینے کی ضرورت ہے

پنجرہ توڑ کی چینج ڈاٹ آرگ پہ عرضی [20]، جو مہم کے مشن کو بہتر سمجھا سکتی ہے، قوت پکڑ رہی ہے۔ لیکن واقعات نے اس وقت ایک بدنما موڑ لیا جب 22 ستمبر 2015
کو دائیں بازو کے ہندو کارکنوں نے دہلی یونیورسٹی میں مہم کے دو ممبران کو دھمکی [21] دی۔40 کے قریب طالب علموں نے موریس نگر پولیس اسٹیشن میں جمع ہو کر تحریری شکایت یعنی ایف آئی آر درج کرائی۔