- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

بنگلادیشی گارمنٹ مزدوروں کی اکثریت عورتیں اور یونین رہنما مرد ۔۔۔ لیکن صرف اب تک

زمرہ جات: جنوبی ایشیاء, بنگلہ دیش, - شہری میڈیا., عورت, مزدور, معاشیات کاروبار
Garment workers at Alif Embroidery Village, a garment factory in Dhaka, Bangladesh. Credit: Amy Yee. Used with PRI's permission

ڈھاکہ، بنگلہ دیش، میں الف امبرویدڑی ولیج نامی ایک ملبوسات تیار کرنے والے کارخانے میں خواتین مزدور کام کر رہی ہیں۔ تصویر: ایمی یی۔ تصویر پی آر آئی کی اجازت سے استعمال کی جا رہی ہے۔

“دی ورلڈ” [1] کیلئے بروس والّس [2] کا یہ مضمون اور آڈیو رپورٹ سب سے پہلے16 ستمبر 2015 کو پی آر آئی.آرگ پر شائع ہوۓ [3] اورانہیں ایک مواد بانٹنے کے معاہدے کے تحت ادھر دوبارہ چھاپا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اینٹوں اور ٹین سے بنی اس عمارت کی تیسری منزل پہ واقع چھوٹے کمرے میں ایک وقت میں صرف 15 لوگ ہی سما سکتے ہیں۔ کمرے کے باہر برآمدے سے کئی اور لوگ بھی کمرے میں ہونے والی گفتگو سن رہے ہیں۔ یہ سب گیپ اور ٹارگٹ جیسی کمپنیوں کیلئے کپڑے تیار کرنے والی ایک گارمنٹ فیکٹری ڈکہ ڈائینگ کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہ ایک یونین کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری حالیہ برسوں میں دو تباہیوں سے دوچار ہوئی ہے: نومبر 2012 کی تازین آتشزدگی [4] اور اپریل 2013 میں رانا پلازہ کا گرنا [5]۔ ان واقعات کے بعد صنعتی تبدیلی کیلئے بین الاقوامی کارروائی تو ہوئی، لیبرکی تنظیم نوبھی ہوئی۔ مزدوروں کے گروہ، جن میں اکثریت عورتوں کی تھی، ایسے ہی کمروں میں سر جوڑ کر بیٹھےتاکہ ایک ایسا قدم اٹھانے کے متعلق بات کر سکیں جوکھلم کھلا اور قدرے خطرناک ہے: کارخانہ مالکان، جو کے تقریباً تمام ترمرد ہیں، ان کو یہ بتانا کہ وہ مزدور یونین سازی کررہے ہیں۔

جیسے ہی باہر عصر کی اذان ختم ہوتی ہے، سرتی اخترجمع شدہ مزدوروں کوقائل کرنے کیلئے اپنے پیغام کا آغاز کرتی ہیں۔ وہ گارمنٹ ورکرز یکجہتی فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری ہیں۔ اس سے پہلے وہ خود بھی ایک گارمنٹ مزدور تھیں۔

Shamima Akter, an organizer with the Bangladesh Garment and Industrial Workers Federation, talks to workers about intimidation they’re facing because of their labor organizing activity. Credit: Bruce Wallace. Used with PRI's permission

شمیمہ اختر، بنگلہ دیش گارمنٹ اینڈ انڈسٹریل ورکرز فیڈریشن کی ایک منتظم، یہاں مزدوروں سے اس دباؤ کے بارے میں بات کر رہی ہیں جو انہیں انکی لیبر تنظیمی کاروائیوں کے باعث مالکان کی جانب سے جھیلنا پڑ رہا ہے۔ تصویر: بروس والّس۔ تصویر پی آر آئی کی اجازت سے استعمال کی جا رہی ہے۔

1994 میں اسکی تنخواہ 250 ٹکا یعنی تقریباً 3$ فی مہینہ تھی، وہ جمع شدہ مزدوروں کو بتاتی ہیں۔ وہ تب سے مزدوروں کے حقوق کیلئے لڑ رہی ہیں اور دو مرتبہ جیل جا چکی ہیں۔

“میں ایک مزدور ہوں۔ میں رہنما نہیں ہوں۔ میں کبھی اپنے آپ کو بطور رہنما متعارف نہیں کراتی،” وہ کہتی ہیں۔ “میں صرف آپ سے تھوڑی زیادہ سمجھ رکھتی ہوں۔ لیکن ایسی باتیں ہیں جو آپ جانتیں ہیں اور میں نہیں جانتی۔”

بنگلہ دیش میں یونین تشکیل دینا غیر قانونی نہیں ہے مگر مزدور پھربھی خفیہ طور پہ ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ملاقاتیں حال ہی میں یہاں اس چھوٹے کمرے میں منتقل کی ہیں کیونکہ پچھلے مقام پہ ایک پڑوسی نے انکی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پوچھنے شروع کر دیے تھے۔ اختر مزدوروں کوخبردار کرتی ہیں کہ اگر مالکان کو معلوم ہوا تو وہ مزدوروں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کریں گے، ان سے ایسے کاغذات پہ دستخط کرائیں گے جو انہی کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور انہیں نوکری سے برخاست کرنے کیلئے بہانے ڈھونڈھیں گے۔ مالکان پرتشدد بھی ہو سکتے ہیں۔

Vertex, a garment factory in Dhaka, Bangladesh, spent $1.2 million to upgrade this factory of 4,500 garment workers. Credit: Amy Yee. Used with PRI's permission

ڈھاکہ، بنگلہ دیش، میں ورٹیکس نامی ایک گارمنٹ تصویر پی آر آئی کی اجازت سے استعمال کی جا رہی ہے۔فیکٹری نے اپنے 4500 ملازمین پہ مشتمل کارخانے کو بہتر بنانے کیلئے 12 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔ تصویر: ایمی یی۔

“ایک دن، وہ رحیمہ کو مار پیٹ سکتے ہیں،” اخترقریب بیٹھی ایک عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہتی ہیں۔ “کسی اور دن کوئی اور مزدور انکی زد میں آ سکتا ہے۔ آپ کو اس ناجائز برتاؤ کے خلاف آواز اٹھانی پڑے گی تاکہ انکی ہمّت نہ ہو کہ وہ دوبارہ کسی مزدور کی پٹائی کریں۔”

دو سال پہلے، ملبوسات بنانے والے مزدوروں نے سخت جدوجہد کے بعد تنخواہ میں 68 ڈالر فی مہینہ کے برابر اضافہ حاصل کیا [6]، جس سے انکی کم از کم آمدنی دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی۔ اختر کا کہنا ہے کہ یونینیں اگلے پانچ سالوں کے دوران تنخواہ میں دوبارہ دوگنا اضافے کیلئے لڑیں گی۔ ایک نۓ لیبر قانون [7] کے تحت اب مزدوروں کیلئے زچگی چھٹیوں میں اضافہ اور مزدوروں کو منافع بانٹنے کے حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن اختر کا کہنا ہے کہ صرف یونینیں ہی ان وعدوں کو حقیقت کا روپ دے سکتی ہیں۔

“ایک یونین ایک چھتری کی طرح ہوتی ہے،” وہ کارکنوں کو بتاتی ہیں. “ہم نہ تو بارش میں گیلے ہوںگے اور نہ ہی سورج میں جھلسیں گے۔”

تقریباً آدھے گھنٹے بعد مزدور یونین بنانے کے حق میں فارم بھرنے کیلئے قطار میں کھڑے ہونا شروع ہو گئے. اختر نے اپنی باتوں کا سلسلہ جاری رکھا .

The offices of the Bangladesh Garment Manufacturers and Exporters Association, or BGMEA, tower above Dhaka. Four years ago, Bangladesh’s High Court has ruled that the building was built without proper approval and in an environmentally inappropriate place, and ordered it removed. It has not been. Credit: Bruce Wallace. Used with PRI's permission

بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررزاینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن یا بی جی ا یم ای اے کے دفاتر ڈھاکہ کے آسمان کے اوپر چھائے ہوۓ نظر آتے ہیں. چار سال قبل بنگلہ دیش کے ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ یہ عمارت بغیراجازت اور قدرتی ماحول کے حساب سے ایک غیر مناسب جگہ پہ تعمیر کی گئی ہے. کورٹ نے اسے گرانے کا حکم دیا تھا. اب تک عمارت کو منہدم نہیں کیا گیا. تصویر:بروس والّس. تصویر پی آر آئی کی اجازت سے استعمال کی جا رہی ہے۔

کچھ دن بعد بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررزاینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن [8] یا بی جی ا یم ای اے کے دفاتر سے باہر نکلتے ہوۓ اچانک میرا اورمیرے مترجم کا سامنا اخترسے ہوا . بی جی ایم ای اے گارمنٹ فیکٹری مالکان کا صنعتی گروپ ہے۔ پچھلے سال بنگلہ دیش کی کل برآمدات میں ملبوسات کی برآمد کاحصّہ80 فیصد یعنی 24 ارب ڈالرزکے برابر تھا۔ اور ملک کے کئی منتخب رہنماؤں کے ان برآمدات میں مفادات ہیں۔ اخترکا مقابلہ انہی مفادات سے ہے۔

سیاسی انقلاب سے نمٹنے کیلئےفوج کی طرف سے لگائے گئے ایک ایمرجنسی قانون کے ساتھ ساتھ 2007 میں بنگلہ دیش میں یونین بندی کو بھی غیر قانونی قرار [9] دے دیا گیا تھا. لیکن 2013 میں نۓ لیبر قانون کے نفاذ کے بعد سے لیبر کی تنظیمی کاروائیوں میں تیزی آئی ہے. ڈھاکہ میں اے ایف ایل- سی آئی او کے یکجہتی مرکزکے مطابق تب سے اب تک 400 مزدور یونینوں کی تصدیق کر دی گئی ہے. اب 150,000 گارمنٹ مزدور ایک نہ ایک یونین میں شامل ہیں. ابھی بھی یہ کل 40 لاکھ مزدوروں کا ایک بہت چھوٹا حصّہ ہے. ملبوسات بنانے والے مزدوروں میں 80 فیصد عورتیں ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے عورتوں کی قیادت میں شمولیت بہت کم رہی ہے.یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے میں چوہدری سینٹر برائے بنگلہ دیش اسٹڈیز [10]کی ڈائریکٹر سنچتا سکسینہ [11] کا کہنا ہے کہ “بہت دفعہ ان تنظیموں میں بہت زیادہ نظام مراتب اورمردانہ حاکمیت رائج ہوتی ہیں. بہت دفعہ یونین کے سربراہ ٹریڈ یونین کے کارکن ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی گارمنٹ فیکٹری میں خود کام نہیں کیا ہوتا.”

پھر بھی یونینوں میں خواتین قیادت میں اضافہ ہو رہا ہے. ملک میں دو سب سے نمایاں گارمنٹ مزدور رہنما عورتیں ہیں (ناظمہ اور کلپنہ اختر، جن کا سرتی اختر سے کوئی رشتہ نہیں). اے ایف ایل- سی آئی او کے مطابق اب کارخانے کی سطح پر دو تہا ئی رہنما عورتیں ہیں.

اور وہ یونینیں جو مزدوروں کو اپنے ساتھ شمولیت پہ رازی کرنے کیلئے کام کر رہی ہیں، ان کیلئے عورتوں کا قیادت میں ہونا اچھی خبر ہو سکتی ہے. منتظم سرتی اختر جانتی ہیں کہ مزدوروں سے ان کی سطح پر کیسے بات کرنی چاہئے. مثال کے طور پہ وہ ایک انتہائی پھسلواں مچھلی کا ایسا استعارہ استعمال کرتی ہیں جوشاید صرف دیہی بنگالیوں کوہی سمجھ آ سکے.

Garment workers in Dhaka gather at a "women's cafe" after work to learn about workers' rights and responsibilities. Credit: Amy Yee. Used with PRI's permission

ملبوسات تیار کرنے والے مزدور کام کے بعد ڈھاکہ میں ایک خواتین کیفے میں اکھٹا ہوتی ہیں تاکہ اپنے مزدور حقوق اور زمہ داریوں کے بارے میں سیکھ سکیں. تصویر:
ایمی یی. تصویر پی آر آئی کی اجازت سے استعمال کی جا رہی ہے۔

وہ پوچھتی ہیں “مالکان ایک چوپڑی مچھلی کی مانند ہیں اور ایسی پھسلنے والی مچھلی کو پکڑنے کیلئے معلوم ہے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟”

“راکھ” مزدور جواب دیتے ہیں.

“راکھ. یہ یونین ہماری راکھ ہے،” اختر کہتی ہیں. “تمام مزدوروں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے.”

اختر کی ڈکہ ڈائینگ کے ملازمین سے ملاقات کے کچھ مہینوں بعد میں ان سے رابطہ کرتا ہوں. وہ کہتی ہیں کہ حکومت نے دو مرتبہ انکی یونین بندی کی درخواست مسترد کر دی ہے اور دونوں دفعہ یہ کہا کہ انکے پاس مطلوبہ 30 فیصد مزدوروں کے دستخط نہیں ہیں.

اختر ان ناکامیوں سے گھبرائی نہیں ہے. وہ کہتی ہے کہ وہ دوبارہ درخواست دیں گی اور اگلی دفعہ انکے پاس 70 فیصد مزدوروں کے دستخط ہوں گے. جیسے کہ انہوں نے ڈکہ ڈائینگ کے مزدوروں کو شروع میں بتایا تھا، “آپ وہاں اپنے سر ڈھانپ کے نہیں بیٹھے رہ سکتے. آپ کو اپنے حقوق طلب کرنے پڑیں گے.”