بنگلادیشی دارلحکومت ڈھاکہ کی گلیاں رمضان میں غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے افطار کی تیاریوں میں کسی بفٹ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں
بنگلادیش کی نوے فیصد آباد ی مسلمان ہے، لہذا اس بات میں کوئی اچنبہ نہیں ہے، رمضان وہ مہینہ ہے جس میں مسلمان سورج طلوع ہونے سورج غروب ہوے تک کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے اجتناب برتتے ہیں ۔اور رمضان کے دوران کھانے کی روایات بلکل بدل جاتی ہیں۔
بڑے بڑے مشہور ریسٹورانٹس سے لے کر چھوٹی چھوتی گلیوں میں لگے ٹھیوں تک، ہر کسی کے پاس خاص قسم کے کھانے ہوتے ہیں، اور سڑک کنارے چلتے گاہکوں کو لذیذ کھانوں کی خوشبوئیں کھینچتی ہیں۔
ڈھاکہ کا روایتی قدیم چوک بازار جہاں افطار کے سامان کے لیے مارکیٹ میں کافی رش نظر آرہاہے ،تاریخ دانوں کے مطابق یہ بازار صدیوں پرانا ہے، اور یہاں کے روایتی کھانے بھی۔
ڈھاکہ کہ شاہی افطار میں شمار ہوتے ہیٕں جو سولہویں صدی میں مغل سلطنت کے دور میں رائج تھے۔
شاہی جلاپی
Shahi Haleem
شاہی دہی بورا
بلاگر بوکا مانوش بولتی چائے لکھتےہیں:
ষোড়শ শতকে মোঘল সাম্রাজ্য বিস্তৃত হয়ে ঢাকায় ডেরা ফেলার সময়টায় তারা সাথে করে নিয়ে আসে তাদের রাঁধুনি দলকে। কারণ, মোঘলদের অন্যতম বৈশিষ্ট্য ছিল আরাম আয়েশ আর বিলাস বহুল জীবনাচার যার অন্যতম অনুষঙ্গ ছিল তাদের মুখরোচক নানান খাবার দাবার। আর এসব খাবারের অন্যতম উপাদান ছিল হরেক রকম মশলা আর তেলের যথেষ্ট ব্যবহার। আর মোঘলদের এই বিলাসী জীবন যাপনের জন্য সাথে করে বয়ে আনা কর্মচারী-খানসামা-বাবুর্চি একসময় যথেষ্ট হয়ে উঠে না, ফলে আশেপাশের লোকালয় হতে বহু লোকের চাকুরী জোটে মোঘল পরিবারসমূহে। অন্যান্য পদের মত হেঁসেলেও স্থান হয় কতিপয় রন্ধন কারিগরের। আর তাদের হাত ধরেই মোঘল খাবার প্রাসাদের বাইরে বিস্তৃতি পায়।
سولہویں صدی میں مغل سلطنت نے ڈھاکہ تک اپنا تسلط بڑھایا ،اور سب سےپہلے ڈھاکہ میں اپنا ایک کیمپ قائم کیا ،جہاں وہ کھانا پکانے کے لیے اپنی خود کی ٹیم لائے، مغلوں نے اپنے آرام اور پرآسائش زندگی گزاری۔ اور ان کے کھانے پکانے کا انداز مغلوں کی زندگیوں میں اہمیت رکھتا ہے، ان کے باورچی تیز مصالحے اور زیادہ مقدار میں روغن کا استعمال کرتے تھے تاکہ کھانا لذیذ بنے ۔اپنے شاہانہ انداز کوبرقرار رکھنے کے لیے اپنے مقامی باورچی اور بیرے رکھے جاتے تھے ،،جن میں سے کچھ مغلیہ کھانے پکانے سیکھے ہوئے تھے، ،اورانہی باورچیوں کی بدولت مغلیہ کھانے ڈھاکہ اور اس کے اطراف تک پھیلے ۔
سوتی کباب
ران
چکن روسٹ
بکرا روسٹ
بورا باپر پولے کھائی
بورا پاپر پولے کھئای بیچکتے وقت خوانچے والے گا گا کر گاہوکوں کواپنی جانب متوجہ کرتے ہیں
ایک عام بنگالی گھرانے کا افطاری دستر خوان کچھ ایسا دِکھتا ہے:
افطار نہ صرف خاندانوں کے اندر ہوتا ہے بلکہ اس سے کمیونٹی میں بھی اتحاد ہوتا ہے ، بدھ مت کے لوگ بھی غریب مسلمانوں میں رمضانوں کے رمیان افطار تقسیم کرتے ہیں۔
“Bangladeş'in başkenti Dakka'daki bir Budist tapınağı, her gün müslümanlara iftar yemeği veriyor..”@ntahakilinc #bangladesh #dakka #budist #müslüman #iftaryemeği A photo posted by طوبا (@tubadursun793) on
عائشہ اپنے بلاگ میں لکھتی ہیں:
In Bangladesh, a wide variety of foods is prepared to break the fast at Maghrib (evening prayer) time. Some of the common iftar items from Bangladeshi cuisine include Piyaji (made of lentils paste, chopped onions, green chilies, like falafel), Beguni (made of thin slices of eggplant dipped in a thin batter of gram flour), Jilapi, Muri ( puffed rice similar to Rice Krispies ) , yellow lentil grains, usually soaked in water and spiced with onion, garlic, chilli and other iftar items), Haleem, dates, samosas, Dal Puri (a type of lentil based savoury pastry), Chola (cooked chickpeas), fish kabab, mughlai paratha (stuffed fried bread with minced meat and spices), pitha, traditional Bengali sweets and different types of fruits such as watermelon. Drinks such as Rooh Afza and lemon sharbat are common on iftar tables across the country. People like to have iftar at home with all family members and iftar parties are also arranged by mosques.
بنگلادیش میں افطار کے لیے قسم قسم کے کھانے کھائے جاتے ہیں ، افطار مین کھائے جانے والے زیادہ تر کھانوں میں دال کے پیسٹ ، کٹی پیاز اور ہری مرچوں سے بنا پیاجی ، میدے کے آمیزے میں لپٹی بینگن کی قتلیاں جنہیں بیگونی کہا جاتا ہے ، جلاپی ،،کررے چاول ،جنہیں موری کہا جاتا ہے، پیلی دال ،،حلیم ،کھجور ،سموسہ ،دال پوری ، چھولے ، مچھلی کے کباب ،قیمہ بھرا مغلی پراٹھا ، پیٹھا جو روایتی بنگالی مٹھائی اور تربوز شامل ہیں ،شربتوں میں روح افزا ،لیموں کا شربت افطار کے دسترخوان پر خاص ہوتے ہیں ، لوگ افطار اپنے گھر والوں کے ساتھ ،،مسجدوں اور افطار پارٹیوں میں بھی کرتے ہیں۔
بلاگر محمد الیاس چودھری افطار کے وقت بازاروں میں رش کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ইফতার সময়ের আধ ঘন্টা আগে এসেও দেখি এই লেভেলে তিল ধারণ করার স্থানটুকু নেই। সব সীট বুকড। তারপর করিড়োর, হাটার চিপা গলি, মেঝের মাঝখান সব খানেই ব্লকড। কিছু খাবার অর্ডার দিয়ে যে নিয়ে আসবো সেই পথটুকুও যেন বন্ধ। […]
افطار سے آدھے گھنٹے پہلے ،،بازاروں کے فوڈ کورٹس میں رش ہوتا ہے ، ساری کرسیاں بکڈ ہوتی ہیں ،بازاروں کی راہداریاں بھی بھری ہوتی ہیں اور افطار لینے والے انتظار کررہے ہوتے ہیں اور چلنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی ۔