(یہ تحریر وسعت اللہ خان نے پاک وائسز کے لئے لکھی)
ایک عام گمان یہ بھی ہے کہ وہ علاقے پسماندہ رہ جاتے ہیں جن کی سرکار میں شنوائی اور اقتدار کے ایوانوں میں مناسب نمائندگی نہیں ہوتی ۔ حکمران چونکہ اونچا سنتے ہیں اس لئے اپنی بات اوپر تک پہنچانے کے لئے بادشاہ کے کان کے قریب رہنا بہت ضروری ہے۔ اس قربت سے علاقے کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔
چلئے اس تاثر کو حقیقت کی کسوٹی پر گھس کے دیکھتے ہیں۔ مگر اس کے لئے ہمیں بطور سیمپل کوئی علاقہ بھی تو منتخب کرنا ہوگا۔ مظفر گڑھ کیسا رہے گا ؟ دو دریاؤں ( چناب ، سندھ ) کے درمیان بھی ہے ، زرخیز بھی ہے ، سب سے ترقی یافتہ صوبے کے سب سے پرانے اضلاع (1864) میں بھی شامل ہے اور سیاسی لحاظ سے مردم خیز بھی ۔ دیکھتے ہیں مظفر گڑھ کو اس سیاسی مردم خیزی سے پچھلے سو برس میں کیا کیا فیض پہنچا۔
مظفر گڑھ میں برٹش دور ہی سے جو خاندان سیاست پر چھائے ہوئے ہیں ان میں گورمانی ، دستی ، نوابزادگان ، کھر ، جتوئی وغیرہ نمایاں ہیں اور یہ اثر و رسوخ نسل در نسل منتقل ہوا۔ کبھی کم تو کبھی زیادہ۔
نواب مشتاق احمد گورمانی قیامِ پاکستان کے بعد کے ابتدائی دس برس کے بادشاہ گروں میں سے تھے۔ آپ وزیرِ داخلہ ، وزیرِ امورِ کشمیر ، گورنر پنجاب اور گورنر مغربی پاکستان رہے ۔
گورمانیوں کی طرح دستی خاندان بھی لگ بھگ سو برس سے مظفر گڑھ کا سیاسی وزیٹنگ کارڈ ہے۔ عبدالحمید دستی نے تحریکِ آزادی میں بھی حصہ لیا۔ گورنر پنجاب بھی رہے ، مغربی پاکستان صوبے میں صحت سمیت متعدد قلمدان بھی انہیں ملتے رہے۔ اور پھر ان کے صاحبزادے امجد حمید دستی بھی پون صدی تک سیاست میں فعال رہے ۔کبھی قومی تو کبھی صوبائی سطح پر ۔
کھر خاندان ساٹھ کے عشرے سے سیاست میں ہے۔ غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر اور طاقتور وزیرِ اعلی رہے اور وفاقی قلم دان بھی سنبھالتے رہے۔ ان کے دیگر بھائی بھی ضلع تا قومی سیاست میں متحرک رہے۔ ان کی بھتیجی حنا ربانی کھر اقتصادی سے لے کر خارجہ امور تک وفاق میں نامور ہوئیں۔
جتوئیوں نے بھی پچھلے تیس چالیس برس میں زیادہ سیاسی فعالیت دکھائی ۔اس وقت ان میں سب سے نمایاں نام عبدالقیوم جتوئی کا ہے ۔
اور اسی مظفر گڑھ نے نوابزادہ نصراللہ خان کو بھی جنم دیا جن کی یادگار جمہوری خدمات دوست دشمن پر عیاں ہیں۔ بعدازاں ان کے صاحبزادوں نے مقتدر نظام کے رولز آف دی گیم کو فالو کرنا شروع کردیا ۔
یہ ہمہ جہتی سیاسی نمائندگی اور اثر و رسوخ جو ایک سو برس پر پھیلا پڑا ہے خود مظفر گڑھ کے کس قدر کام آیا ؟ آج یہ ضلع انفراسٹرکچر کی ترقی کے اعتبار سے پنجاب کے پانچ سب سے پسماندہ اضلاع میں ہے ۔حالانکہ اس کی سرحد اور تانے بانے پنجاب کے دس سب سے ترقی یافتہ اضلاع میں سے ایک یعنی ملتان سے ملتے ہیں۔ پھر بھی مقامی سماج نیم قبائلی ، نیم جاگیردارانہ ، نیم صنعتی اقدار کا الجھا ہوا گولہ ہے۔
ہاں مشتاق احمد گورمانی کے وارثوں نے ایک تعلیمی ٹرسٹ بنایا جس کے اسکالر شپ پروگرام میں مظفر گڑھ اور اس سے متصل دیگر پسماندہ اضلاع کے بچوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔اس ٹرسٹ نے حال ہی میں پاکستان کے سب سے اچھے تعلیمی اداروں میں سے ایک یعنی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ( لمز ) کو ایک ارب روپے کی ریکارڈ گرانٹ بھی دی تاکہ مالی استعداد نہ رکھنے والے بچے بھی لمز میں پڑھ سکیں۔ لیکن اس گرانٹ سے مظفر گڑھ اور آس پاس کے بچوں کو کس قدر فائدہ ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے۔اس ایک مثال کے علاوہ مجھے کوئی اور خاندانی مثال نظر نہیں آتی جس نے اپنے اثرو رسوخ اور اثاثوں کا رخ محروم لوگوں کی جانب کسی حد تک موڑا ہو۔
اگر بے لوثی اور دردمندی کے ساتھ پچھلے سوا سو سال میں کسی نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو بس ایک ہی نام چمک رہا ہے۔ سردار کوڑے خان جتوئی۔ انہوں نے اپنی دس ہزار ایکڑ زرعی زمین اٹھارہ سو چورانوے میں عوامی فلاح و بہبود بالخصوص تعلیمی مقاصد کے لئے وقف کردی اور اس کا انتظام و انصرام اس دور کی ضلعی انتظامیہ کو سونپ دیا۔ یہ تعلیمی ٹرسٹ ایسی خدائی نعمت تھی کہ اس کی آمدنی درست طریقے سے استعمال ہوتی تو آج مظفر گڑھ پاکستان کا سب سے تعلیم یافتہ ضلع ہوتا۔ کہنے کو کوڑے خان پبلک اسکول پچھلے تیس برس سے کامیاب ہے۔ لیکن سردار کوڑے خان کی وصیت کی روشنی برقرار رہتی اور ٹرسٹ کی اراضی کو سیاسی و انتظامی ریوڑیوں کی شکل میں نہ بانٹا جاتا تو کم ازکم ایک درجن کوڑے خان پبلک اسکول وجود میں آسکتے تھے۔جس ضلع میں کوڑے خان ٹرسٹ جیسا ادارہ ہو وہاں خواندگی کا تناسب اگر سو برس بعد بھی تیس فیصد سے آگے نہ بڑھے تو پھر کہنے کو مزید کیا رھ جاتا ہے۔
چلئے ذہنی زائقہ بدلنے کے لئے ایک کہانی سن لیجئے۔
مظفر گڑھ کے زرخیز دریائی علاقے میں ایک پٹواری مسلسل دس برس سے ایک ہی جگہ براجمان تھا۔ ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر ( ریونیو ) آیا اور اس نے پٹواریوں کا ریکارڈ منگوا کر دیکھا تو سوائے ایک کے سب پٹواریوں کے تبادلے معمول کے مطابق پائے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے اس پٹواری کے بارے میں چھان پھٹک کے بعد اسے خط بھجوایا کہ نائب تحصیلدار کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے آپ کا تبادلہ فوری طور پر تھل کے علاقے میں کیا جا رہا ہے۔ وہاں جلدازجلد عہدے کا چارج سنبھال کر رپورٹ کریں۔ ذہین پٹواری نے خط پڑھ کے سوچا کہ اس زرخیز دریائی علاقے میں پٹواری بنے رہنا بنجر تھل کی نائب تحصیلداری سے بدرجہا بہتر ہے۔ چنانچہ اس نے اسی خط کی پشت پر لکھا ،
محترم اسسٹنٹ کمشنر صاحب ، آپ کے درجات اور بلند ہوں ،
آپ کا خط ملا اور اپنی ترقی کی اطلاع پا کے نہایت خوشی ہوئی۔ عرض یہ ہے کہ فدوی بطور پٹواری اپنی موجودہ حیثیت پر ہی قناعت کرنا چاہتا ہے لہذا فدوی کو بطور نائب تحصیلدار ترقی پر مجبور نہ کیا جائے تو حضور کا تا حیات احسان مند رہوں گا۔
آپ کا خادم
غلام حسین پٹواری