
Protesters gather outside the Pakistani High Commission in London to demand action against sectarian killings in Pakistan. Image by Rob Pinney. Copyright Demotix (12/1/2013)
پاکستان میں اہل تشیع کی امام بارگاہوں پر حملے کی بڑھتی ہوئی لہر کے باعث سول سوسائٹی اور نوجوانوں اظہار یکجہتی کے لیے کراچی میں ایک امام بارگاہ کے باہر انسانی ڈھال بنائی شیعہ سنی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیعہ سنی سنی بھائی بھائی کے نعرے لگائے ،،
دو ہزاور پندرہ کے آغاز سے اب تک مختلف شہروں میں چار امام بارگاہوں پر حملوں میں اسی سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ پاکستانی طالبان کے دھڑے، شیعہ مخالف کالعدم عسکری تنظیمیں لشکر جھنگوی اور جنداللہ کا دعوی ہے کہ یہ حملے انہوں نے کروائے ہیں اور یہ شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف جاری پاکستانی فوج کے آپریشن ضرب عضب کا بدلہ ہے۔
ویب سائٹ ساوتھ ایشیا ٹیرارزم پورٹال کے مطابق پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشتگردی میں مرنے والوں کی تعداد پچھلے چند سالوں میں حیرت انگیز حد تک بڑھی ہے ، دو ہزار چودہ میں دو سو افراد مارے گئے جبکہ2013 اور 2014 کو ملا کر دیکھیں تو پانچ سو سے زائد جانیں جاچکی ہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق دو ہزار ایک سے اب تک 3935 افراد فرقہ وارانہ دہشتگردی کی نظر ہوچکے ہیں جن میں 2372 افرا اہل تشیع تھے۔
- Pakistani youngsters form a human shield to show solidarity with Shia Muslims after recent attacks (collage by author). Photos from the Facebook page of PYA and Jibran Nasir
انسانی ہاتھون کی زنجیر اہل تشیع امام بارگاہ کے باہر پاکستان یوتھ الائنس کے زیر اہتمام بنائی گئ ،، نوجوان ایکٹویسٹ سال 2007 میں ایک ساتھ جمع ہوئے اور شدت پسندی کے خلاف امن و امان کے قیام کے لیے اور اختلافات کے حل اور معاشرے کی فلاح کے لیے سامنے آئے ۔ حالیہ خبروں کے مطابق تنظیم کے بانی علی عباس زیدی نے کہا کہ میری تیس سال کی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ میں نے سوچا کہ اب معاملات حکومت کے بس سے باہر ہوگئے ہیں ،،
What is the reason of existence of a state if it cannot ensure right to live of its citizens? #Pakistan
— Syed Ali Abbas Zaidi (@Ali_Abbas_Zaidi) February 18, 2015
ریاست کے اپنے وجود کا کیا جواز رہتا ہے اگر وہ اپنے شہریوں کو زندہ رنے کے حق سے محروم رکھے۔
شیعہ سنی بھائی بھائی
ٹوئٹر پر چلنے والا ہیش ٹیگ شیعہ شنی اتحاد استعمال کیا گیا تاکہ یکجانیت کا پیغام عام کیا جائے۔
Shia and Sunni are two arms of Islam. Imam #islam#ShiaSunniBrotherhoodpic.twitter.com/NWYjzGWcvB
— Nida Qureshi (@q_nida) February 9, 2015
شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازو ہیں۔
We all believe in the same Allah and the same Prophet, this should stop. #ShiaGenocide
— Raafay. (@Amazican) February 18, 2015
ہم سب ایک ہی اللہ اور ایک ہی رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ اہل تشیع کی نسل کشی بند ہونی چاہیئے۔
سیاستدانوں نے بھی دوسرے ملسمان فرقوں پر الزامات دھرنے والوں اور تکفیریوں کہنے والوں کے خلاف جمع ہوئے:
Takfiris are not enemies of #Shia or #Sunni they're the enemies of #Islam and #Muslim . #ShiaSunniBrotherhood . Remain United #PeshawarBlast
— Senator Faisal Abidi (@SenFaisalAbidi) February 14, 2015
تکفیری شیعہ یا سنی کے دشمن نہیں یہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ہمیں متحد رہنا ہوگا۔
شیعہ مساجد، دہشتگرد حملوں کا نشانہ
رواں برس چار شیعہ مسجدوں پر حملے کیے گئے،
راولپنڈی ،19 فروری: روالپنڈی کی امام بارگاہ میں خودکش حملہ آور نے ھملہ کیا مغرب کی نماز کے دوران جس میں تین افراد ہلاک ہوئے اور متعدد زخمی ہوئے ،،تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جنداللہ نے حملے کی زمہ داری قبول کی اور اسے پاکستان فوج کے آپریشن ضرب عضب کا بدلہ قرار دیا۔
پشاور، 13 فروری: تیرہ فروری کو21 افراد ہلاک اور پچاس سے زائد افراد پشاور کے علاقے ھیات آباد میں امام بارگاہ میں ہونے والے بم حملے اور فائرنگ مین زخمی ہوئے،حملہ آور پولیس یونیفارم میں ملبوس تھے جنہوں نے جمعہ کی نماز پڑھتے نمازیوں پر حملہ کیا۔
شکار پور، 30 جنوری: پاکستان کے جنوبی شہر شکارپور میں ساٹھ افراد ہلاک ہوئے ،حملہ جمعہ کو کیا گیا تھا ،جو دو سال میں فرقہ وارانہ حملوں میں سب سے خطرناک حملہ تھا۔
راولپنڈی، 10 جنوری: راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے کی امام بارگاہ میں زورداردھماکا ہوا ،،جس میں آٹھ افراد جانبحق ہوئے اور سولہ زخمی ہوئے ۔ حملے کی زمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ۔
حکومت کی ناکامی
پاکستان آرمی بڑے پیمانے پر طالبان کے خلاف شمالی وزیرستان میں اور افغان سرحد کے قریبی ضلعوں میں جون 2014 سے آپریشن کررہی ہے اور حالیہ دہشتگرد حملے اسی کا ردعمل ہیں۔
Can't we all stand against #ShiaKillings in #Pakistan? #Pakistanbleeds,#TTP, #Media http://t.co/aAtUXwPUxC
— Zaki Shah (@ZakiAbbasShah) February 18, 2015
کیا ہم سب اہل تشیع کی ہلاکتوں کے خلاف متحد نہیں ہو سکتے؟
دسمبر 2014 میں ہونےوالے پشاور اسکول حملے میں 141 افراد مارے گئے جس میں زیادہ تر بچے تھے۔ حکومت نے قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا۔
شیعہ کمیونیٹی کے رہنما اور بہت سی سیاسی جماعتوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اصغر عسکری کا کہنا ہے کہ:
شیعہ کمیونٹی پر یہ چوتھا حملہ ہے اور یہ حکومت خود دہشتگرد ہے۔ ہم اس حکومت کی وجہ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنما نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ” آرمی چیف راحیل شریف آپریش ضرب عضب کا دائرہ پنجاب تک بھی پحیلائیں۔ اگر شیعوں کا قتل عام نہیں ختم ہوا تو ہم لانگ مارچ کریں گے۔”
پاکستان میں شیعہ آبادی
پاکستان میں شیعوں کی آبادی دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے جو تیس ملین ہے۔ اور ایران کے بعد ہے پاکستانی شعیہ مسلم آبدی کا بیس فیصد ہیں، پاکستان میں کل 97 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ شیعہ مسلمانوں کو پاکستان میں امتیازی سلوک کا سامنا رہا جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں، 90کی دہائی میں شیعہ مخالف تنظیمیں منظر عام پر آئیں، اور کراچی میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ، 2001 سے کرم ایجنسی سمیت افغان سرحد اور بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔
عالمی سیاست
شیعہ پوری دنیا کے 1.6 بلین افراد مسلمانوں میں 15 فیصد ہیں جبکہ سنی 85 فیصد ہیں، اسلام کے دونوں فرقوں کے روایات اوررواج کچھ مختلف ہیں لیکن تاریخی طور پر صدیون سے مسلمان امن و امان سے ساتھ ہی رہتے رہے ہیں لیکن حالیہ سالوں میں شیعوں کو عراق ،پاکستان ،بحرین اور سعودی عرب میں شدید دہشتگردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور قید و بند کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شیعہ سنی فسادات طاقت اور سیاست کی جنگ ہے نہ کہ مذہب یا مسلک کی لڑائی۔
فرقہ وارانہ تشدد یا شعیوں کی نسل کشی؟
مشرق وسطی کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2007 سے فرقہ وارانہ تشدد نے پاکستان میں 2300 جانیں لیں۔ جبکہ قبائلی علاقون میں پندرہ سو افراد اس کا نشانہ بنے ہیں جن میں شیعوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ٹوپس کے مطابق گزشتہ تیس روز میں شیعہ نسل کشی کا ہیش ٹیگ سولہ ہزار بار استعمال ہوا ہے اور اس کا پہلی بار استعمال چار سال پہلے پاکستانی بلاگر عبدل نیشاپوری کی جانب سے کیا گیا تھا۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کا لفظ پاکستانی میڈیا میں حالیہ حملوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، لیکن ناروے میں رہائش پزیر صحافی ریحان نقوی کے مطابق:
پاکستان میں فرق وارانہ کشیدگی دراصل آہستہ آہستہ مسلم شیعوں کی نسل کشی کا طریقہ ہے۔
مصنف سبطین نقوی نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ:
یہ ایک کمیونٹی کا سوچا سمجھا قتل عام ہے، لفظ فرقہ وارانہ کشیدگی صحیح نہیں کیونکہ فرقہ وارانہ کشیدگی یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہوتی ہے اگر یہ دو طرفہ جنگ ہوتی تو شیعہ بھی خود کش حملہ آور ہوتے اور دوسرے فرقوں پر حملے کرتے،صحیح لفظ نسل کشی ہے، ایک فرقے کا سوچا سمجھا قتل ہے۔
پاکستان کی دوبارہ زندہ ہوجانے والی فرقہ وارانہ جنگ کے نام پر رپورٹ لکھنے والے مصنف عارف رفی کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
یہ امر اہم ہے کہ اس بات کو ہم شیعوں اور سنیوں کی جنگ نہ کہیں بلکہ سنی دیوبند اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کہیں۔ جس میں شاہل تشیع تشدد کی لہر کا سامنا کر رہے ہیں۔
بہت سے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ عسکری دہشتگرد پاکستانیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس وقت شیعہ سنی بحث کو ختم کرنے کے لیے جبران ناصر جیسے لوگ جو تحریک چلارہے ہیں تاکہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان فرق کو ختم کیا جاسکے اور مطالبہ کیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کو کسی سطح پر قائم نہ رہنے دیا جا جاسکے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان عاصم باجوہ نے ان حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی:
Recent spate of terrorist attks highly condemnable.Our heart goes out to aggrieved brothers/sisters,we stand with them at time of grief-1/3
— AsimBajwaISPR (@AsimBajwaISPR) February 18, 2015
حالیہ دہشتگردی کی لہر انتہائی قابل مذمت ہے، ہم اس غم کی گھڑی میں اپنے دکھی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں۔
پاکستان شیعہ علما کونسل کے رہنما علامہ عارف حسین واحدی کہتے ہیں کہ:
دشمن شیعہ سنی اتحاد کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔
ٹویٹر پر #ShiaSunniBrotherhood, #ShiaGenocide کے ہیش ٹیگ اور فیس بک ہر ‘میں ایک سنی ہوں اور میں اپنے شیعہ بھائی بہنوں کی ہلاکت کی مذمت کرتا/کرتی ہوں‘ کے نام کے پیجزپاکستان میں شیعہ سنی اتھاد کی مثال بن رہے ہیں۔ پاکستان کے سب سے پرانے انگریزی اخبار ڈان کے ایک اداریہ میں کچھ یوں کہا گیا:
اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ ملک میں جاری اہل تشیع پر تشدد کے باوجود ملک خانہ جنگی کے دہانے پر نہیں کھڑا۔ لیکن اگر فرقہ وارانہ دہشتگردی کے خلاف قدم اٹھانے کو فوقیت نہ دی گئی تو مشرق وسطی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح معاملا ت اختیار سے باہر بھی جاسکتے ہیں۔