ایرانی خواتین کی حقوق کی وکیل مدیحہ گلروکو 700 ملین تومان (تقریبا دو لاکھ ڈالر) کی ضمانت پر27 جنوری کو دہا کر دیا گیا۔ گلرو نے ایرانی پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر احتجاج کے دوران گرفتار ہنے کے بعد جیل میں 93 دن گزارے۔ گلرو اصفھان میں خاتون پر تیزاب کے حملے کے واعے کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ انہوں نے تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل میں 45 دن کی قید تنہائی بھی گزاری، ایون جیل سیاسی قیدیوں کی حراست اور ان پر تشدد کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔
Iran women activist Mahdieh Golroo detained for protesting serial acid attacks in Isfahan released after 93 days pic.twitter.com/MwB0npEprV
— Sobhan Hassanvand (@Hassanvand) January 27, 2015
ایرانی حقوق نسواں کی کارکن جنہیں اصفہان میں خواتین پر تیزاب کے حملے پر احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا کو 93 دن کی قید کے بعد رہائی مل گئی۔
گزشتہ اکتوبر میں اصفان کے علاقے میں خواتین پر تیزاب پھیکنے کے کئی واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجہ میں ایران میں عوامی سطح پر احتجاج شروع ہوا۔ حکام کا کہنا تھا کہ حملہ کے چار واقعات ہی رونما ہوئے لیکن سوشل میڈیا استعمال کنندگان کے مطابق ایسے واقعات کی تعاداد سرکاری عداد سے دگنی ہے۔ جب پولیس اس پر کسی بھی قسم کا ایکشن لینے میں ناکام رہی توحکومت کی ناقص کارکردگی کے خلاف احتجاج اور سوشم میڈیا تحریکیں ملک بھر میں عمل میں انے لگیں۔
گلرو کا نام گزشتہ ماہ گلوبل وائسیز ایڈوکیسی کی جیل میں قید میڈیا اور سرگرم کارکنوں کی فہرست میں شامل تھا۔ ایرانی انٹرنیٹ صارفین نے حکومت کے اس دہرے میعار کو نشانہ بنایا کہ جس کے نتیجہ میں ایک کارکن کو ایسے واقع پر محض احتجاج کرنے پر قید کر لیا گیا جبکہ حکومت نے خود ان واقعات کی مذمت کی تھی۔
Ms Golroo has been kept in solitary confinement for 2 months. Charges against her are unclear http://t.co/NWMkQfoon8 http://t.co/PcAIQjHGod
— Boroumand Foundation (@abfiran) December 23, 2014
مس گلرو کو دو ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا جب کہ ان کے خلاف الزامات واضح نہیں ہیں۔
انٹرنیشنل کیمپین فار ہیومن رائیٹس ان ایران کے ڈپٹی ڈائریکٹر گساو نیا نے گلوبل وائیسیز کو دئیے گئے بیان میں کہا کہ یہ مقدمہ حکام کی جانب سے ایران کی عامی زندگی میں خواتین کی موجودگی کو کم کرنے کی کوشش ہے۔
While it is a welcome development that Mahdieh Golrou is currently out on bail, her legal process is far from over and her prosecution is part of a broader plan perpetrated by Iranian officials to silence women’s voices. Despite vigorous denials from Iranian officials that the acid attacks that Golrou was protesting prior to her arrest were anything but the work of a rogue criminal, these attacks did not take place in a vacuum. Rather, these violent acts came in the midst of systematic policies, rhetoric and legislation from Iranian officials aimed at curtailing women’s participation in the public space. Golrou’s arrest and the arrests just last week of other women activists who dared to question these developments are simply an effort by Iranian officials to suppress those who are unafraid to openly challenge this anti-women trend.
مدیحہ گلرو کا ضمانت پر رہا ہونا بہر حال ایک خوش آئیند پیشرفت ہے، اس سلسلہ میں قانونی کاروائی مکمل ہو چکی ہے لیکن ان کی قید ایرانی حکام کی جانب سے خواتین کی آواز کو خاموش کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ایرانی حکام نے سخت تردید کے باوجود کہ جن مجرمانہ حملوں کے خلاف گلرو برسراحتجاج تھیں وہ کاروائیاں محض بدمعاشانہ عمل تھا، ان حملوں کو انفرادی عمل کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ بلکہ یہ پر تشدد کاروائیاں ایے موقع پر ہوئیں کہ جب ایرانی حکام کی جانب سے عوامی سطح پر خواتین کی نمائینگی کو کم سے کم کرنے کے لئے منظم پالیسیوں، بیان بازی اور قانون سازی کا سلسلہ جاری ہے۔ گلرو کی طرح گزشتہ ہفتے ان خواتین کارکنان کی گرفتاری ایرانی حکام کی جانب سے جاری اسی سلسلہ کا حصہ ہے کہ جس میں خواتین مخالف پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کرنے والوں کوزیر اعطاب لایا جا رہا ہے۔