دنیا بھر سے لوگوں نے پشاور پر ہوئے ہولناک حملے سے دوچار ملک پاکستان کے ساتھ سوشل میڈیا پر اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کیا۔ اس حملے کے نتیجہ میں 141 سے زائد لوگ مارے گئے کہ جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔
ان تمام پیغامات میں ایک مخصوص ہیش ٹیگ قابل توجہ ہے کہ جس میں بھارتی شہریوں نے پاکستان سے رقابت کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے اس غمزدہ ہمسائہ ملک کے لئے اس مشکل وقت میں نیک تمناؤں اور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ٹویٹر پر انڈیا پاکستان کے ساتھ ہے کے ہیش ٹیگ سے کیا۔
Yes, I am Indian. So what? The pain of losing a child is universal. #IndiawithPakistan
— Dipankar #LDL (@deep_anchor) December 16, 2014
(تو کیا ہوا کہ میں ایک بھارتی ہوں؟ بچوں کے چلے جانے کا غم پوری کائینات کا ساجھا ہوتا ہے۔)
پاکستان وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے کے قریب 16 دسمبر کو چھ طالبان عسکریت پسند آرمی کے زیر اثر چلنے والے اسکول کی عمارت میں داخل ہوئےجو خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں واقع ہے۔ اس حملے کے نتیجہ میں 500 کے قریب طلبہ اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا۔ حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھے اور انھوں نے اندھا دھند گولیاں چلانے کے ساتھ ساتھ ان گنت خود کش بم دھماکے بھی کئے۔ مبینہ طور پر ایک استاد کو اس کے شاگردوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا اور بچوں کے سروں میں گولیاں داغی گئیں۔ اسکول کے ایک سو چالیس طالب علموں کو شہید کر دیا گیا جن میں اکثریت کم سن بچوں کی تھی اس کے علاوہ اس حملے میں سو سے زائد بچے زخمی بھی ہوئے۔ پولیس کے مطابق تمام عسکریت پسندوں کو حلاک کیا جا چکا ہے۔
ریوٹرز کے لئے اپنے بیان میں طالبان نے کہا کہ انہوں نے اسکول کو اس لئے نشانہ بنایا کہ پاکستانی فوج نے طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں ان کے خاندان والوں کو نشانہ بنایا۔ بیان میں کہا گیا کہ، ” ہم چاہتے ہیں کہ انکو بھی ہمارے درد کا اندازہ ہو”۔
ڈاکٹر آصف سہراب نے فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:
2,3 funerals in every Street of Peshawar. In my street there are 3! Peshawar bleeds, Pakistan cries.
پشاور کی ہر گلی میں دو سے تین جنازے ہیں، میری گلی میں تین جنازے ہیں آج، پشاور خون بہا رہا ہے اور پورا پاکستان آنسو!
ایسے یوم سوگ پر بھارتی شہریوں کی جانب سے جاری کیا ہیش ٹیگ ایک خوش آئیند قدم تھا:
No Indian I know is indifferent to the horror in Peshawar. Nothing can be worse than sending your children2school ¬ having them come back
— Shashi Tharoor (@ShashiTharoor) December 16, 2014
(میں آج کیس بھی ایسے بھارتی کو نہیں جانتا کہ جو پشاور کے اس واقعے سے لاتعلق ہو۔ اس سے زیادہ ہولناک کیا ہو ستا ہے کے گھ سے اسکول بھیجے گئے بچے اب کبھی واپس نہ آ سکیں۔)
Children are the first casualty of violence and war. It is time we all came together and #PutAStop to this violence. #PeshawarAttack
— Kailash Satyarthi (@k_satyarthi) December 16, 2014
(جنگ اور تشدد کا پہلا شکار بچے ہو رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جب ہم سب کو مل کر اس ظلم و تشدد کو روکنا ہوگا۔)
These are the school children who were attacked in #PeshawarAttack today. Hold your heart people. #IndiawithPakistan pic.twitter.com/m5xWpJQ6hh“
— Muhammad Safeen (@SafeensS) December 16, 2014
(لوگو اپنا دل تھام کے دیکھ لو یہ ہیں وہ معصوم بچے کہ جنہیں اج نشانہ بنایا گیا)
Because bigots, radicals and murderers on either side of the border need to be wiped off from the face of humanity #IndiawithPakistan
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) December 16, 2014
(بھارت پاکستان کے ساتھ ہے کیونکہ متعصب اور شدد پسندوں کو بارڈر کے دونوں جانب سے صاف کرنا ہو گا کہ انسانیت کو بچایا جا سکے)
We want to live by each other's happiness, not each other's misery. #IndiaWithPakistan #PeshawarAttack pic.twitter.com/RPTYuboDz5
— India Loves Pakistan (@IndLovesPak) December 16, 2014
(ہم ایک دوسرے کی خوشی کا سبب بننا چاہتے ہین، غم اور مصائب کا نہیں)
Share the pain of our Pakistani brothers & sisters grieving for children slaughtered by Taliban.Strength,solidarity,hope #IndiawithPakistan
— Sagarika Ghose (@sagarikaghose) December 16, 2014
(امید، ہمت اور یکجہتی کے پیغام کے ساتھ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں کہ جن کے بچوں کو آج طالبان نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا)
اس ہولناک حملے کی وجہ سے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، اور اس کے ساتھ گورنر ہاؤس پشاور میں آج یونی بدھ کے روز ایک آل پارٹی پارلیمانی میٹنگ بھی بلوائی ہے۔
پاکستانی ٹویٹر صارفین نے بھی ٹویٹر پراپنے غم اور غصے کا اظہار کیا:
This is not my religion, not my politics. I would rather have no god than a god that justifies the mass murder of children. #PeshawarAttack
— Ali Dayan Hasan (@AliDayan) December 16, 2014
(یہ میرا مذہب نہیں، یہ میری سیاست نہیں میں کیسے کسی ایسے خدا کو مان لوں کہ جس کے نام پر بچوں کا قتل عام کیا گیا)
Which God, which religion allows u to kill 100 innocent children. Shame on Taliban! Shame, Shame, Shame. Taliban u r real enemy of God.
— Qamar Waheed Naqvi (@qwnaqvi) December 16, 2014
(نہ جانے کون سے خدا اور کون سے مذہب نے سو سے زائد بچوں کے قتل کی اجازت دی ہے، طالبان تم کو شرم آنی چاہئے تم لوگ ہی اصل میں خدا کے دشمن ہو)
Don't call it resilience. Its our criminal silence in the face of violence that let terrorists play havoc.We mourn everyday w/out learning.
— Umar Cheema (@UmarCheema1) December 16, 2014
(یہ ہماری لچک نہیں ہماری تشدد کے جواب میں مجرمانہ خاموشی ہے کہ جس کا یہ دہشتگرد فائدہ اٹھاتے ہیں ہم بس ہر روز ماتم ہی کرتے ہیں سیکھتے کچھ نہیں)۔
ڈیلی ٹائیمز پاکستان کی سابقہ اداریہ ایڈیٹر مہر تارڑ نے این ڈی ٹی وی کی پورٹل کے لئے اپنے آج کے کالم میں کہا کہ:
آج مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے کسی نے گھونسہ مارا، میری پیٹ میں، میرے دل پر، اور میری روح پر لوہے کی سلاخ سے ضربیں لگائی ہوں۔ جیسے ہی مجھے پشاور کے بچوں کا خیال آتا ہے مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا دل رک گیا ہو۔
بچوں کو منہ پر، سروں پر، گولیاں ماری گئیں اور ان کو گسییٹا گیا اور پھر گولیاں ماری گئیں۔ ان کو بے انتہا سرد مہری سے مار دیا گیا۔ وہ جو تحریک طالبان پاکستان کہلاتے ہیں کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کے خلاف فاٹا میں جاری آرمی آپریشن کا بدلہ ہے، ان عسکریت پسندوں کا بدلہ کہ جو اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں سے معصوم پاکستانیوں کو خوفزدہ کرتے تھے۔
میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ تم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو، تم اس لڑائی کو جہاد کہتے ہو، تم اس کو اللہ کی راہ کہتے ہو، اور پھر وہ سب ہی کرتے ہو کہ جو اسی اللہ نے منع کیا ہے۔ اللہ کے نام پر جنگ کرتے ہو اور اس کے نام پر بچوں کو مار ڈالتے ہو، ان لوگوں کو مارتے ہو کہ جنہوں نے آج تک تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ تم لوگ صرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہو بلکہ تم لوگ تو اپنے آپ کے بی بد ترین دشمن ہو۔
ریکوچیٹ نامی کینیڈین نیوز ویب سائیٹ کے لئے لکھتے ہوئے صحافی جہانزیب حسین نے اس حملے کے بعد اگر کچھ مثبت ہو سکتا ہے پر روشنی ڈالی:
اب شائد ایک امید رکھی جا سکتی ہے کہ اس حملے کے بعد ملک کی قیادت اس بات کا فیصلہ کر لے کہ ایک با معنی، مضبوط اور کثیر مددتی لاحیہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔