اگر میری گلوبل وائسز کی ساتھی رائنا، پچھلے برس ستمبر میں لندن نا آتی تو شاید مجھے یہ علم نا ہوتا کہ سماجی میڈیا کا ہفتہ منایا جا رہا ہے- ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک عالمی اہمیت کا موقع تھا اور اگر آپ گلوبل وائسز جیسے ادارے کے لیے کام کرتے ہیں تو آپ کو اس کے بارے میں ضرور علم ہو گا- لیکن میں لا علم تھی، کیوںکہ میں سماجی میڈیا سے دور بھاگ گئی ہوں-
سب سے پہلے، میں نے ٹویٹر چھوڑ دیا- 2010 میں برازیل کے قومی انتخابات کے دوران شدید استعمال کے بعد، میں تھک گئی تھی – کیا وہ معلومات کی ذیادتی تھی؟ جسمانی طور پر تھکے ہوئے ہونے کے علاوہ یہ احساس کے میں ہمیشہ سب سے آگے نہیں رہ سکتی، مجھے بے اختیار کر دیتا تھا۔ میں سماجی میڈیا کی توانائیکی عادی تھی, لیکن اب میں اسے اور جاری نہیں رکھ سکتی۔ . 2011 کے آغاز سے، میں نے سماجی میڈیا کا استعمال مکمل طور پر چھوڑ دیا-
سماجی میڈیا کے ایک عادی کی مانند اسے چھوڑنے کی علامات ظاہر ہونے لگیں-جن میں سے ایک لاگ ان صفحے کو مسلسل گھورنا تھا- مناسب واپسی کی علامات کا سامنا کرنے کے بعد، میں بہتر محسوس کر شروع کر دیا ہے.اچانک میرے پاس ان چیزوں کے لیے وقت اور توانائی تھی جسے کر کے مجھے راحت ملتی تھی- جیسے کہ کتابیں پڑھنی اور یوگا سیکھنا، جس کے لیے میرے پاس پہلے وقت نہ تھا-
میں یہ جانتی تھی کہ فیس بک میں میرے خیالات کو منتشر کرنے اور میری اپنے آپ سے توجہ ہٹانے کی صلاحیت ہے- میں نے 2012 سے پہلے اپنی روانگی کی تاریخ مقرر کی اور ان چند دوستوں کو الوداع کہا جواپنی مصروف ٹائم لائن میں بھی میری اپ ڈیٹ دیکھتے- میں نے خاموشی سے اپنا اکاوءنٹ غیر فعال کیا یہ جانتے ہوئے کہ مجھے اس کی لت پڑی ہے اور یہی میری پریشانی کی اصل وجہ ہے۔
میں اپنے دوستوں کے نو مولود بچوں کی تصاویر یاان کے بلونگڑوں کی تصاویر نہیں دیکھ پاتی،اس طرح دعوت نامے، دلچسپ واقعات، اور میرے قریبی دوست احباب کے روز مرہ کے اپڈیٹس بھی نہیں دیکھ پاتی۔ ہاں البتہ مجھے اس بات کا اطمئنان ضرور ہے کہ مجھے مختلف گیمز، میمیز، یا پھر اشتہارات کی بھرمار کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ مجھے اس بات کی بھی آزادی ہے کہ میں اپنی مرضی کی معلومات تک رسائی، اور اپنے خیالات کی خام حالت کا بہترین استعمال کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میرے دوست احباب متبادل ذرائع پر نوٹ یا تصاوری کم ہی بھیجتے ہیں اور مجھے بھی اس بات کا اعتراف کرنا ہو گا کہ میں بھی روابط بحال رکھنے میں بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی۔
میں رابطے میں رہنے کو مس کرتی ہوں، لیکن سچ یہ ہے کہ جب میں دیگر لوگوں سے ملتی ہوں اور یہ پوچھا جاتا ہے کہ “تم نے وہ چیز فیس بک پر دیکھی؟’ تو مجھے ایک ایسی خبر کے بارے میں پتا چلتا ہے جو کہ پرانی ہے اور سب اس کے بارے میں جانتے ہیں جسکا مجھے علم نہیں ہوتا تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ ‘اچھا مجھے علم نہیں تھا کہ آپ فیس بک چھوڑ چکے ہو'۔ اسے مواقعوں پر مجھے لگتا ہے کیا یہ اصل میں با معنی طریقہ ہے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کا؟
میں فیس بک یا ٹویٹر کو بالکل بھی مس نہیں کرتی ہاں یہ اعتراف ظرور کرنا چاہوں گی کہ میں نے ایک “جعلی” اکاؤنٹ بنا رکھا ہے جس کا مقصد پچھلے ایک سال سے کاز کا پرچار ہے۔ اور اسی وجہ سے مجھے اپنی ایک دوست کی زچگی کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے اسکو فالو کرنا شروع کر دیا، اور ایسے ہی ہم مزید دس لوگوں سے ملے جو ہمارے حلقہ احباب میں سے تھے۔ لیکن میں اس سارے معاملے میں ایک خاموش سامع سے زیادہ کچھ نہیں۔ مجھے زبردستی گوگل پلس استعمال کرنا شروع کرنا پڑا کہ میرے بہت سے دوستوں نے سکائپ کی بجائے ہینگ آؤٹ استعمال کرنے لگے ہیں۔ اور ایک بار میں نے ایک کام کی غرض سے ٹویٹر چلایا جو میں کر رہی تھی لیکن وہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ مجھے ایسے لگنے لگا کہ میں ایکایسی گلی میں چلا رہی ہوں جو کہ ایک ایسے ہجوم سے بھری ہوئی ہے جو کہ چلانے میں مصروف ہے۔ ایک بور اور بہرا کر دینے والا شور۔ اور اس کے نتیجے میں مجھے دوبارہ اپنے خودساختہ ہیشٹیگ کی طرف واپس جانا پڑا، #occupymyself.
کیا میرا دوبارہ سوشل میڈیا پر واپسی کا ارادہ ہے؟ میں نہیں جانتی۔ مجھے میرے پرانے دوست یاد آتے ہیں۔ مجھے ہم خیال لوگوں سے ملاقات کرنا یاد آتا ہے جیسے کہ جائنٹ پانڈینہ، جو کہ میرا اصل زندگی کا بہترین دوست ہے، اگر ٹویٹر نہ ہوتا تو میں اسکو کبھی نہ مل پاتی۔ کبھی کبھی مجھے احمقانہ قسم کو پوسٹس پر ہنسنا یاد آتا ہے۔ میرے اندر اب بھی ایک اآواز باقی ہے جو مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں کیا کچھ مس کر رہی ہوں۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے واپس جانا چاہئے، لیکن میں انتظار کر رہی ہوں اپنی یونیورسٹی کے ختم ہونے کا کہ اس کے بعد میرے پاس کافی وقت ہوا کرے گا۔ اور مجھے امید ہے کہ تب تک ایسے سوشل میڈیا ٹولز بھی دستیاب ہو جائیں گے کہ جو مجھ جیسے محتاط صارفین کے لئے ہوں گے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ جب میرے پاس وقت ہوگا تو میرا ارادہ ہے یوگا کرنے کا، باغبانی کرنے کا، قدرت کو قریب سے جاننے کا اور کئی ایسے کام کرنے کا جو میں نے اپنی زندگی میں کرنے کے لئے ایک فہرست میں لکھ رکھے ہیں۔ مجھے سارا کام کا دن آن لائن مربوط رہنے کے بعد آفلائن وقت گزارنا پسند پے۔ میں اب بھی کمپیوٹر کے سامنے اپنے ارادے سے کہیں زیادہ وقت گزارتی ہوں اور کہیں کم کتب پڑھتی ہوں۔ مجھے ہر روز اپنے اندر کا سکون تلاش کرنے کا جو موقع ملتا ہے وہ بہت اچھا لگتا ہے بجائے اس کے کہ دوسروں کی وجہ سے بلاوجہ کہ کاموں میں مشغول ہو جانا۔ اپنے لئے میرے پاس وقت کا ہونا میرے لئے بہت بڑی تبدیلی ہے کہ جب سے میں سوشل میڈیا سے آزاد ہوئی ہوں۔
مجھے بہت مزہ آتا ہے کہ جب میں باہر گھوم رہی ہوتی ہوں مجھے چیک ان کرنے، پڑھنے، پوسٹ کرنے، ریپورٹ کرنے، شیئر کرنے یا اپنے ریٹویٹس یا لائیکس کی تعداد کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوی۔ میں اس بات پر زیادہ بہتر توجہ دیتی ہوں کہ لوگ کیا بات کر رہے ہیں، اور میں جو اپنے محسوسات پر زیادہ اچھے انداز میں توجہ دے سکتی ہوں۔ باہری مداخلت سے مکمل طور پر آزاد اور اپنے آپ کے ساتھ بہتر رابتے میں محسوس کرتی ہوں۔
سوشل میڈیا سے آزادی ہی میرے لئے کافی نہیں اسی لئے میں نے اپنے لئے اگلے چند ہفتوں کے لھے خاموش ویپسانہ اعتکاف بک کر رکھا ہے، جہاں دس روز کے لئے میرا کام صبح نو سے شام پانچ تک یہی ہے کہ ایک جگہ ساکت بیٹھ کر مراقبہ کرنا ہے۔ میں اپنے سوشل میڈیا دوستوں کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ ایسا دس منٹ تک کر کے دکھائیں۔
پاؤلا گویز کا تعلق برازیل سے ہے اور یہ اصلاح شدہ سوشل میڈیا عادی ہیں گلوبل وائسز پر بہزبانی مدیر ہیں۔