- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

چین- پروپیگنڈہ سے بھرپور نئے سال کا عظیم جشن ناظرین کو متا ثر کرنے میں ناکام

زمرہ جات: مشرقی ایشیا, چین, - شہری میڈیا., تاریخ, حالیہ خبریں, سفر, سیاست, فنون لطیفہ اور ثقافت, موسیقی, میڈیا و صحافت

یہ تفریح کم اور کوفت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام  نے نئے سال کی تقریب پر کچھ اس قسم کے ردعمل کا اظہار کیا جو کہ چین کے سرکاری ٹیلیویژن چینل پر جشن بہاراں کے نام سے نشر [1] کیا گیا۔ 

چُنوان کے نام سے ہونے والا یہ ورائٹی شو ہر سال لاکھوں ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ شو نئے سال کے جشن کا لازمی جز بن چکا ہے۔ چینی اخبار ‘ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ’ کے مطابق [2]750 ملین چینی باشندوں نے یہ جشن دیکھا جو کہ امریکہ کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی تقریب سوپر باؤل کے ناظرین سے چھ گنازیادہ ہے۔ 

لیکن اس کی شہرت میں گزشتہ چند سالوں میں کمی آئی ہے۔ اس سال لگ بھگ 5 گھنٹے لمبی تقریب [3]  جو کہ 30 جنوری 2014 کو رونما ہوئی مزاحیہ خاکوں، ناچ گانے، جادو اور دیگر مظاہروں سے بھرپور تھی۔ اس کا مقصد چین کے خواب [4] کی تشہیر تھا۔ چین کا خواب ایک سوچ اور نظریے کا نام ہے  جو سخت محنت اور اجتماعی کوششں کی بات کرتا ہے کہ جس سے چین کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جا سکے۔  ٹیلی ویژن کے اس شو میں ملک کے سرخ ماضی کی یاد تازہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ 

اس شوس میں لفاظی سے خوب کام لیا گیا، مثال کے طور پر ایک گانا جسکا نام تھا “آئی ایم ناٹ ٹو ڈیمانڈنگ” (میں کچھ زیادہ کا طالب نہیں) جسے ایک مشہور مزاحیہ فنکار نے پیش کیا اس گانے میں ایک متوسط طبقہ کے گھر کی آرام دہ زندگی کا ذکر تھا جیسا کہ چین کا خواب ہے۔

شاعری کچھ اس طرح ہے:

“میرے پاس 80 مربع میٹر کا گھر اور ایک اچھی بیوی ہے۔ ہمارے بچے کالج کی تعلیم مکمل کر چکے ہیں اور گریجویشن کے فوری بعد ملازمت حاصل کر چکے پیں۔ میں کام کی جگہ اور گھر دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہوں۔ جلدی کے کام نہیں کرتا۔ میں باہر ورزش کرتا اور ہر روز نیلے آسمان کو دیکھتا ہوں۔

پنشن اور صحت کی سہولیات کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ حکومت پورا کر دیتی ہے۔ یہ میرا چینی خواب ہے یہ چھوٹا اور آسان ہے۔ میں ڈریگن یا فینکس بننے کی کوششں نہیں کر رہا بلکہ میں خوشیاں محسوس کرنا چاھتا ہوں۔ یہ سانی سے پنجوں کے بل کھڑا پو کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔”

اس فنی مظاہرے کے پسِ منظر میں وسیع چین کی تصویر دکھائی گئی، جس میں نئے بنائے ہوئے گاؤں کے گھروں اور کچھ دیگر بنیادی ڈھانچے سے متعلق منصوبوں کو بھی شامل کیا گیا۔۔ اور ان مناظر کا مقصد چینی خواب کی تشہیر تھی۔  یعنی وہ جملہ جو صدر شی جنپنک کی طرف سے آیا اور اب اسے باربار میڈیا میں اور سرکاری تقریروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

چین کا خواب کے موضوع کے علاوہ تقریب کا ایک حصہ چین کی  کمیونسٹ پارٹی کی انقلابی تاریخ کے احوال کے لئے وقف تھا۔ 1930 میں Red Detachment of Women [5] جو ایک چائنہ کا سنگیت ہے نے اپنی شروعات۔ [6]شو کے دوران پیش کئے گئے گیت میں دکھایا گیا کہ کیسے ایک عام کسان خاتون کیمونزم کے حق میں سرگرم سپاہی بن جاتی ہے۔ یہ گیت ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب چین میں سرخ ثقافت ایک  تناذع بنی ہوئی ہے:

شو میں استعمال کی گئی سیاسی رمز بڑی لطیف مگر پر اثر تھی۔ جیسا کہ میزبان کے الفاظ اور ترتیب سازِ مو سیقی میں نظر آیا۔ یہ پیغامات اوپر سے آنے والی ہدایات کا نتیجہ ہیں جیسا کہ چین کے وزیرپروپیگنڈہ ڈیپارٹمنٹ لیو قبو نے اپنے سرکاری ٹی وی کے حالیہ دورے کے دوران اس بات پر زور دیا کہ [7]  جشن کو “مثبت قوت کا پیغام پھیلانے” اور” وقت کے تسلسل کو آگے بڑھانے کہ جیسا چین کا خواب ہے” کے لئے استعمال کیا جائے۔

تاہم جشن اپنا جادوئی اثر نہ دکھا سکا۔ ایک سروے [8]کے مطابق اس سال 60 فیصد ناظرین کو اس جشن سے انتہائی مایوسی ہوئی، خاص طور پر کم تعداد میں مزاح کا استعمال ایک بڑی وجہ رہی کیوں کہ ماضی میں ان تقاریب میں مزاحیہ خاکے معاشرتی واقعات پر طنز کرتے اور انکی طرف توجہ دلاتے تھے۔ سو جیان کے شو میں شرکت نہ کرنے کی خبر [9]سے بھی جشن کی شہرت میں کمی آئی ۔ خبر ہے کہ سو نے سنسر کی کڑی پابندیوں کے زیر اثر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 

 جس وقت جشن کی تقاریب چل رہی تھیں تب اس پر گاہے بگاہے تبصرے آتے رہے۔ اور یہ موضوع 31 جنوری کی صبح تک ٹرینڈنگ ٹاپک بنا رہا۔ چینی مائکرو بلاگروں نے خاص کر اس جشن پر تنقید کی۔ ایڈیٹرانِ چیف Financial Times Chinese Zhang Lifeng نے ک [10]ہا:

春晚啊,你到底怎么了???

چنوان، تمھیں کیا ہوا ہے؟؟؟

‘ریڈ’ کے فن کے مظاہرے کا نوٹس لیتے ہوئے بیجنگ میں مقیم میڈیا سے تعلق رکھنے والے ویبو زہنگوان ڈی وینزہان نے لکھا [11]کہ:

春晚,红色娘子军主导!

ریڈ ڈیٹاچمنٹ آف وومن [5]کا چنیان پر غلبہ ابھی تک قائم ہے۔ 

ذیانگ پییون، نامی ایک ناقد نے پروگرم کو ہر طرح کے اِقدار کے خلاف قرار دیا [12]:

奴役与自由、丑与美、暴力与温柔,在同一时代的舞台。如果我承认一个集体的中国梦,这个梦就是希望这个国家彻底告别“红色娘子军”,走向“玫瑰人生”。

قید اور آزادی، بد صورتی اور خوب صورتی، تشدد اور نرمی ، سب ایک سٹیج پر لگا دیے گئے ہیں۔ اگر میں چین کے خواب میں حصہ ڈالوں تو یہ خواب ہو گا کہ ریڈ ڈیٹاچمنٹ آف وومن کو ڈیٹاچ یعنی الگ کر دیا جائے اس طرح یہ “گلفام زندگی” کی طرف ایک قدم ہوگا۔”

لکھاری بیسو پروپیگنڈہ کی ساخت پر تنقید [13]کرتے ہوئے:

春晚现象:为什么春晚总导不好?仿佛经年痼疾?病灶到底在哪里?就在它“用文艺节目推销意识形态”,谁导都得贯彻这个主旨,就像要人把一杯白水说成美酒那样痛苦;2、为何年年吐槽年年看年年骂?也是因为同一个原因“推销意识形态”,热议的是意识形态,不是文艺;3、伟光正存在一天这现象就持续一天。

چنوان کا اثر: چنوان کو پیش کرنا کیوں مشکل ہے؟ جیسے یہ کوئی مرض سے دوچار ہو۔  اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب اِس حقیقت میں یے کہ اپنے نظریات کے پرچار کے لئے یہ جشن استعمال ہونے لگا ہے۔ جو بھی اس جشن کی ہدائت کاری کر تا ہے اسے خود ہدایات پر عمل کرتے ہوئی شو کو خاص رنگ میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے سادہ پانی کو شراب میں بدل دیا جائے۔ دوم ہرا سال لوگ کیوں چنوان پرپہلے سے زیادہ تنقید کرتے ہیں؟ اسکی وجہ بھی وہی ہے یعنی یہ اسی نظریہ کا بے جا پرچار۔ سارا جشن فن کے مظاہرے سے زیادہ اس نظریہ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ سوم یہ شو اپنا اثر کھوتا رہے گا جب تک “بڑے چمکتے رہیں گے” (یہاں بڑوں سے مراد سرکاری رہنماوں کی جانب سے آنے والی ہدایات ہیں)۔

ٹویٹر پر بھی چنوان موضوع بحث بنا۔ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں جیریمیاں جینے جو کہ پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں نے لکھا:

ایلعانی کو تفریح نہیں ہوئی بلکہ وہ غم زدہ ہو گئی [15]:

محقق برائے انسانی حقوق جوشواروشنزویگ نے چنوان پر طنز کرتے ہوئے کہا:

  یہ پہلا سال نہیں ہے کہ شہرت میں کمی ایک بحث کا موضوع بنا ہو۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سابق وزیٹنگ سکالر، رین زی نے 2007 میں چین کےاخبار میں لکھتے ہوئے تبصرہ [21]کچھ یوں کیا تھا:

“جشنِ بہاراں کو ابھی بھی اپنا سیاسی مشن مکمل کرنا ہے اور سیاسی معلومات نشرکرنا ہے۔ لیکن اِس کی موجودہ ترتیب ابھی تک سیاسی پروپیگنڈہ کے پرانے طریقے استعمال کر رہی ہے جو نوجوان ناظرین کی تعداد میں مزید کمی لے آئے گی۔ نوجوان درحقیقت دلچسپ تفریح سے بھرپور پروگراپز دیکھنا چاھتے ہیں نہ کہ سیاسی نظریات کی کلاس لینا۔ میری رائے میں اس طرح کا سیاسی انداز مالی اور تجارتی تقاضوں کے انتہائی خلاف ہے۔”