- Global Voices اردو میں - https://ur.globalvoices.org -

نہ کوئی آپوزیشن، انتہائی کم ٹرن آؤٹ، اور پر تشدد ماحول میں ہوئے بنگلہ دیش کے عام انتخابات

زمرہ جات: جنوبی ایشیاء, بنگلہ دیش, - شہری میڈیا., اسلوب حکمرانی, انتخابات, انسانی حقوق, جنگ اور تنازعات, حالیہ خبریں, سیاست, قانون, مظاہرے, میڈیا و صحافت
An official marks a voter's finger with ink has she prepares to cast the ballot in the 10th general elections in Bangladesh. Image by Reaz Sumon.  Copyight Demotix (5/1/2014) [1]

بنگلہ دیش کے دسویں عام انتخابات کے دوران ایک خاتون ووٹ ڈالنے سے قبل اپنے انگوٹھے پر مخصوص نشان لگواتے ہوئے ( تصویر: رضا سمن)

کشیدگی کا شکار بنگلادیش کے دسویں عام پارلیمانی انتخابات [2]میں ووٹنگ کا روز انتہائی کم ووٹر ٹرن آؤٹ [3] سے خاصہ متاثر ہوا اور ملک میں جاری تشدد کی لہر کے زیر اثر 18 افراد ہلاک [4] اور درجنوں زخمی ہوئے [5]۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی قیادت میں ملک کی سیاسی حزب اختلاف نے جارحانہ انداز میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ان کے حامیوں نے ووٹنگ کے عمل کو روکنے کے لئے پیٹرول بم کے استعمال [6] اور شدید احتجاج کا سہارا لیا. 100 سے زائد اسکول جو پولنگ اسٹیشنوں کا کام دے رہے تھے [7] کو انتخابات کے موقع پر آگ لگا دی گئی۔

ملک بھر میں 400 مراکز پر پولنگ کا عمل روکنا پڑا۔ بہرحال ابھی ووٹوں کی گنتی اور نتائج کے اعلان کا عمل جاری ہے (رواں تبصرہ یہاں ملاحظہ فرمائیں [8]

بنگلہ دیش الیکشن کمیشن [9]کے بیان کے مطابق محض 40 فیصد ووٹرز نے اس عمل میں حصہ لیا اور یہ 2008 کے عام انتخابات [10]کے مقابلے میں بہت کم ہے کہ جس میں 87 فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ غیر سرکاری اور انتخابی عملی کی جانچ پر مامور ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اصل ٹرن آؤٹ سرکاری رپورٹ سے بھی کم یعنی صرف دس فیصد ہی رہا۔ [11]

انتخاات میں کم ٹرن آؤٹ کی وجہ بلاگر اومی رحمان پیال [12] نے اپنے فیس بک پر کچھ یوں بیان کی:

সংবাদমাধ্যম খুব ফলাও করে সন্ত্রাসের খবর প্রচার করছে, আবার বলছে এই নির্বাচন একটা প্রহসনের নির্বাচন কারন মানুষ এই নির্বাচনে অংশ গ্রহন করছেনা। কিন্তু কেউ বলছেনা আসল কথা – এতো সন্ত্রাসের মধ্যে মানুষের জীবন বিপন্ন হয়ে পরেছে, জামাত-বিএনপি রাষ্ট্রযন্ত্রের উপর প্রকাশ্য ঘোষনা দিয়ে আক্রমন চালাচ্ছে। এই অবস্থায় মানুষ ভোটকেন্দ্রে যাবে কেমন করে? সাংবাদিকেরা এই সহজ জিনিসটা বুঝেনা এরকম ভাবার কোন কারন নেই।

میڈیا الیکشن سے قبل ہونے والے پرتشدد ماحول کو رپورٹ کرنے میں مصروف رہا۔ اس کے علاوہ میڈیا نے اس بات کا بھی بہت تذکرہ کیا کہ اپوزیشن کے بغیر، یہ انتخابات ایک تماشا بن گیا ہے لہذا لوگ شرکت نہیں کر رہے ہیں.لیکن سچ کوئی بھی نہیں بیان کر رہا، لوگوں کی روز مرہ کی زندگی مسلسل بندش اور تشدد کے واقیات کی وجہ سے متاثر ہے۔ سب نے دیکھا کہ کیسے بی این پی اور جماعت حکومت پر کھلے عام حملے کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے پولنگ اسٹیشن جانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ اور میں نہیں مانتا کہ اس پہلو کے بارے میں صحافی برادری لا علم ہے۔

ملک بھر کے مختلف انتخابی مراکز میں ٹرن آؤٹ کا رجحان مختلف رہا۔ کچھ اسٹیشنوں میں ہمیشہ کی طرح بھیڑ تھی جبکہ دیگر ویران تھے۔

 

Voters surround a polling agent to collect their voting number in Dhaka-6 constituency during the 10th National Election. Image by Firoz Ahmed. Copyright Demotix (5/1/2014) [13]

ڈھاکہ -6 حلقہ میں ووٹنگ کے دوران ووٹر اپنا ووٹنگ نمبر حاصل کرنے کے لئے پولنگ ایجنٹ کے گرد کھڑے ہیں (تصویر: فیروز احمد)

Security parson stand guard in front of vote center at Pilot Girls High School in Nobabgonj near Dhaka. Image by Mamunur Rashid. Copyright Demotix (5/1/2014) [14]

ایک شخص ڈھاکہ کے قریب نواب گنج میں واقع ووٹ مرکز پائلٹ گرز ہائی اسکول کے باہر چوکس کھڑا ہے۔ (تصویر: مامون الرحمان)

انتخابات کے خلاف احتجاج کرنے والی جماعتوں نے  دعوی کیا ہے کہ ووٹروں نے انتخابات کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن صحافی نعیم طارق [15] نے ووٹروں کو خوف میں مبتلا کرنے پر اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرایا:

নির্বাচন প্রতিহত করতে আপনারা স্কুলগুলো জ্বালিয়ে দিলেন; আগুনে ঝলসে মারলেন নির্বাচনী কর্মকর্তাকে; ভোটারদের আতঙ্কিত-সন্ত্রস্ত করে বাধ্য করলেন কেন্দ্র না যেতে। তারপরও কিভাবে দাবি করবেন যে, মানুষ এই নির্বাচন প্রত্যাখ্যান করেছে? তাদের তো স্বেচ্ছায় ভোট কেন্দ্রে না যাবার সিদ্ধান্ত নিতেও দিলেন না!

آپ لوگوں نے انتخابات روکنے کے لئے اسکولوں کو آگ لگائی، ایک پولنگ آفیسر کو آگ میں بھون دیا، ووٹرز کو ڈرایا دھمکایا کہ وہ انتخابی مراکز نہ جائیں۔ اس کے باوجود بھی آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ عوام نے انتخابات کو مسترد کر دیا۔ آپ لوگوں نے انکو آزادی سے سوچنے ہی کب دیا تھا۔

پولنگ بوتھ پر کئی ووٹرز پر حملوں کے واقیات بھی سامنے آئے۔ شان احمد [16] کا ٹویٹ تھا:

پچھلے انتخابات کے برعکس اس بار خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بھی کم تھا۔ اس غیر یقینی صورتحال کے دوران بھی ایک 85 سالہ خاتون کے ووٹنگ عمل میں شامل ہونے پر اونونتا آکاش [18] کا کہنا تھا کہ:

 

آپوزیشن کے بایکاٹ کی وجہ سے کوئی بھی ووٹ ڈلنے سے پہلے ہی 154 امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو چکے تھے [24]لہذا ان حلقوں میں الیکشن کی ضرورت نہ رہی۔ اس پر کئی لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہ کر سکے، امیاء اختر [25] کا کہنا تھا:

اس بلا مقابلہ انتخابی عمل کے باوجود حیران کن طور پر عوامی لیگ پر دھاندلی کے الزامات لگ رہے ہیں۔ ٹویٹر کے استعمال کنندہ سولجر رجب علی کا کہنا تھا کہ: 

بلاگر رضا الرحمان رضوی [34] نے دھاندلی کے الزامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا:

اس یک رخی انتخابی عمل میں ہم سب جانتے ہیں کہ پہلے سے ہی چنے ہوئے لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اس کے باوجود دھاندلی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

بی این پی کی قیادت میں آپوزیشن نے احتجاج سے پیچھے نہ ہتنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایک نئی 48 گھنٹے کی ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیاہے جو کہ پہلے سے اعلان شدہ ملک بھر میں ناکہ بندی کے علاوہ ہو گی۔ اس سے عوام میں نئے سرے سے پرتشدد واقیات کے آغاز کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔

ڈھاکہ ٹریبیون کے ادارئہ [37] کے مطابق:

The holding of today’s 10th parliamentary election in the absence of the main opposition party can only be justified on the basis of constitutional necessity. The results cannot and should not be viewed as a mandate to rule for a full term. [..]

We acknowledge that today’s elections neither resolve the political crisis nor bring an end to the issue of representative elections that are the people’s right. We call on both AL and BNP to move forward together to give the people elections acceptable to all.

اہم اپوزیشن جماعت کے بغیر ہی آج کے دسویں عام انتخابات کا انعقاد صرف آئینی ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دیا جا سکتا ہے. نتائج کو ایک مکمل مدت کے لئے حکومت کے مینڈیٹ کے طور پر نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی دیکھا جانا چاہئے۔ [..]

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آج کے انتخابات سے نہ تو سیاسی بحران کا حل نکلا ہے اور نہ ہی عوام کے حق رائے دہی تحت نمائندہ حکومت کے انتخاب کا مسئلہ حل ہوا ہے۔ ہم دونوں عوالی لیگ اور بی این پی سے مطالبہ کرے ہیں کہ مل کر مستقبل کے بارے میں سوچیں اور ان انتخابات کو سب کے لئے قابل قبول بنائیں۔

بہت سے لوگ اب بھی ایک بامعنی مذاکرات اور ایک جامع انتخابات کے منتظر ہیں. صحافی جے ای مامون [38] نے جلد ہی ایسے انتخابات کی امید ظاہر کی۔ 

[…] নির্বাচন এদেশে ঈদের মতো ফূর্তি, আমরা সেরকম একটি ফূর্তির নির্বাচনের অপেক্ষায় রইলাম। আর শুভ কাজ যত দ্রুত হয় ততই মঙ্গল, শুভশ্য শীঘ্রম!

اس ملک میں انتخابات جشن کی طرح ہیں۔ ہمیں ایک کل جماعتی و مکمل انتخابات کا انتظار ہے جو کہ جتنا جلدی ہو اتنا ہی اچھا ہے۔