افغانستان کی ان دیکھی تصاویر

جنگ اور دہشت گردی کی طویل تاریخ نے افغانستان کو دنیا کے سب سے خطرناک ملک میں تبدیل کردیا ہے۔ میڈیا کی طرف سے۲۰۰۱ میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والی ترقی پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور خبروں کا مرکز اکثر و بیشتر بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ہلاکتوں کی طرف رہا ہے۔ ایسی صحافت کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس جنگ زدہ مگر خوبصورت ملک کا سفر کرنے سے خوف زدہ ہیں۔

اس ہی لیے برطانوئی فری لانس صحافی اور فوٹوگرافر، انتونی لفلیس(Antony Loveless)، کا کام بہت اہم ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ سے وہ ٹوئیٹر پر افغانستان کی ان دیکھی تصاویر ڈال رہے ہیں۔ یہ تمام تصاویر ان کے ایجاد کردہ مخصوص لقب (hash tag) #ان دیکھا افغانستان کے زمرے میں ٹوئیٹر پر موجود ہیں۔

گلوبل وائسز سے اس مخصوص لقب پر گفتگو کرتے ہوئے لفلیس کہتے ہیں:

میرے پاس افغانستان کی ۲۰۰۰ سے زائد تصاویر ہیں، جو میں نے افغانستان کے تین سفروں کے درمیان جمع کی ہیں۔ ان تصاویر کو عام کرنے کے لیے میں نے ایک منفرد سا لقب ایجاد کیا ہے۔ [#ان دیکھا افغانستان]، [#TheAfghanistanYouNeverSee]۔

ایک بچی جھیل میں شدید گرمی سے بچنے کے لیے ڈبکی لے رہی ہے۔ تصویر از انتونی لفلیس۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

افغانستان میں ہریالی کا ایک منظر۔ یہ ذرخیز علاقہ ہلمند دریا کے نزدیک واقع ہے۔ تصویر از انتونی لفلیس۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

جنوبی افغانستان میں کجاکی دریا کی ہوش روبا تصویر۔ یہ تصویر رائل ہوائی فوج کے چینوک ہلی کاپٹر سے لی گئی ہے۔ تصویر از انتونی لفلیس۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

لفلیس کا مخصوص لقب رائل ہوائی فوج کے سارجنٹ ایلکس فورڈ نے دریافت کیا تھا، جنہوں نے ۲۰۰۱ میں افغانستان کے ہلمند صوبے میں چھ ماہ گزارے ہیں۔

اس مخصوص لقب (hashtag) پر بات کرتے ہوئے، فورڈ وارفیئر (Warfare) جریدے میں لکھتے ہیں:

ہم افغانستان میں ۱۱ سال سے موجود ہیں، اور جنگ زدہ افغانستان کی تصاویر بہت عام ہیں۔ پر عمومی طور پر یہ تصاویر افغانستان کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ مثلاً اکثر تصاویر میں چھنڈے سے لپٹے کفن نظر آتے ہیں جو ووتن بیسیت (Wootton Bassett)یا برز نورتن (Brize Norton) [یہ انگلینڈ میں دو علاقوں کے نام ہیں] جارہے ہوتے ہیں۔۔۔۔ یا ایک ہنستے ہوئے فوجی کی تصویر کے نیچے اس کے جاں بحق ہونے کی تاریخ درج ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے برطانیہ کی اکثریت آبادی جو افواج کی افغانستان میں موجودگی کی حمایت کرتی ہے، ان کو افغانستان کی اصل صورتِ حال کا علم نہیں۔

علاقائی بچے فوجیوں سے بات کرنے کو تیار نظر آرہے ہیں۔ تصویر از ایلکس فورڈ۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

افغانی بچے یونیسف (UNICEF) کی عطیہ کردہ کتابوں اور قلم کے ساتھ ایک کلاس روم میں۔ تصویر از ایلکس فورڈ۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

یہ مخصوص لقب افغانستان کی طرف سفر کرنے والوں میں بہت مقبول ہوگیا ہے۔ صارفین افغانستان کی وہ تصاویر شئیر کرتے ہیں جو روایتی میڈیا میں نہیں دیکھی جاتیں۔

ایک افغان بچہ کمیرے پر آنے کو بے قرار۔ ۔تصویر از اسٹیف بلیک۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

حال ہی میں، اقبال احمد آروز غنی (ایک افغانی فوٹوگرافر) نے اس ہی مخصوص لقب کے زمرے میں کچھ تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالی ہی جو افغانستان کا دوسرا روخ دِکھاتی ہیں۔

مشترکہ شادی کی ایک تقریب جس میں دسیوں لوگ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ یہ تقریب ڈائی کندی (وسطی افغانستان) میں منعقد ہوئی تھی۔ مشترکہ شادی کی تقریب اب بہت عام ہوگئی ہیں کیونکہ اس سے انفرادی خاندان پر معاشی بوجھ کم ہوجاتا ہے۔ تصویر از اقبال احمد آروز غنی۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

نوجوان افغان بچیاں ایک بند دکان کے سامنے کتاب پڑھتے ہوئے۔ تصویر از اقبال احمد آروز غنی۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

سردیوں میں میدان وردک صوبے میں بهسود ضلع کا منظر۔ تصویر از اقبال احمد آروز غنی۔ (ان کی اجازت سے تصویر استعمال کی گئی ہے)۔

ہر تصویر کو کئی ٹوئیٹر صارفین شئیر کرتے ہیں، جس سے فوٹوگرافروں کو زیادہ لوگوں تک رسائی کا موقع ملتا ہے۔

گلوبل وائسز سے بات کرتے ہوئے، انتونی لفلیس کہتے ہیں:

لاتعداد ٹوئیٹر صارفین کا کہنا ہے کہ یہ مخصوص لقب ٹوئیٹر کا بہترین استعمال ہے۔ اور آج کل میں ایک کتاب لکھنے کا سوچ رہا ہوں جس میں یہ سارے مخصوص لقب (hashtag) جمع کیے جائیں۔

2 تبصرے

جواب کو منسوخ کریں

بات چیت میں شریک ہوں -> sajjad

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.