اگر آپ نے افغانستان کے تعلیمی میدان میں امید افزا مضمون نہ پڑھا ہو، تو یہ مصمنون ان سب سے مختلف ہے۔ ۳۰ جون ۲۰۱۲ء کو کابل میں مرکزِ سائنس نے اعلان کیا کہ خلیل اللہ یعقوبی، جو غزنی صوبے میں کالج کا طالبِ علم ہے، اس نے آزادنہ طور پر ریاضی کا ایک فارمولا دریافت کیا ہے۔ یہ فارمولا دو درجی مساوات کو حل کرسکتا ہے، جس میں ایک رقم نامعلوم ہو۔ خلیل اللہ، جو گیارویں جماعت کا طالب علم ہے، نو آباد شہر کے البیرونی اسکول میں پڑھتا ہے۔ یہ اسکول غزنی کے مضافات میں واقع ہے۔
فارمولے کے بارے میں بتاتے ہوئے، خلیل اللہ کہتے ہیں:
میں نے یہ فارمولا پہلے کسی کتاب میں نہیں دیکھا تھا۔ نہ ہی میں نے کسی ذرائع کا استعمال کیا ہے اور نہ میں نے انٹرنٹ پر اس کو دیکھا ہے۔ یہ میری ذاتی کاوش ہے۔ اس فارمولے سے ہم دو درجی مساوات حل کرسکتے ہیں۔
کچھ ٹوئیٹر صارفین نے اس خبر کا خیر مقدم کیا ہے، اور اسے وہ افغانستان کے تعلیمی شعبے میں بہتری کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ مثلاً، مولِکس ٹوئیٹ کرتے ہیں:
لا جواب!!! افغانستان سے لاجواب خبر۔ تعلیمی شعبے میں ترقی کی نوید۔
ایک اور ٹوئیٹر صارف، جاسور آشوروف (Jasur Ashurov) (وسط ایشائی میں قائم خانہ بدوش)، لکھتا ہے
آپ کو ہمیشہ #افغانستان سے خوش خبری نہیں ملے گی۔ اس لیے میں اس خبر کو پڑھ کر بے انتہا خوش ہوں۔
وہ ایک روسی سائنسدان اور شاعر کے الفاظ کو استعمال کرکے مذید لکھتا ہے[ru]:
…и может собственных Ньютонов и быстрых разумом Платонов земля афганская рожать…
اس طالب علم کی کامیابی، غزنی صوبے کی ابتر تعلیمی صورتِ حال میں نمایاں نظر آتی ہے۔ طالبان کے کارکنوں اور ہمدردوں نے صوبے میں کئی اسکول بند کردیے تھے۔ مگر حال ہی میں، ۴۰۰ علاقہ مکینوں نے ان بنیاد پرست گروہوں سے بغاوت کرتے ہوئے علاقے کے ۸۳ میں سے ۸۱ اسکول دوبارہ کھول دیے ہیں۔
مجموعی طور پر، ۲۰۰۱ میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے افغانستان میں تعلیمی شعبے میں بہتری ریکارڈ کی گئی ہے۔ ۲۰۰۳ سے لے کر اب تک، پورے ملک میں تقریباً ۵۰۰۰ اسکول تعمیر کیے گئے ہیں (pdf)۔ ان اسکولوں میں تعلیم کے جدید آلات موجود نہیں ہیں اور قابل اساتذہ کی بھی بہت کمی ہے۔ اس کے علاوہ، بنیاد پرستوں کی جانب سے لڑکیوں کے کئی اسکول پر حملہ کیا گیا ہے، جو عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔
دلاور شیراز آئوٹ لوک افغانستان(Outlook Afghanistan) میں افغانستان کے تعلیمی شعبے کے بارے میں لکھتے ہیں:
ہمارے ملک افغانستان میں تعلیم کے شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ معاشرے میں موجود مسلسل عدم استحکام ہے۔ اندرونی، علاقائی، اور بین الاقوامی جنگیں، جو افغان زمین پر لڑئی گئیں، ان کی وجہ سے سماجی اور تعلیمی شعبے کو بے انتہا نقصان پہنچا۔ ۱۹۷۹ کے سوویت حملے کے بعد، ایسی لاتعداد لڑائیاں اور شورشوں نے جنم لیا جس وجہ سے تعلیمی شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکا۔ وہ مسائل، جو تعلیمی مسائل سے زیادہ بنیادی نوعیت کے تھے، نے لوگوں کی زیادہ تر قوت اپنی جانب مبذول کررکھی تھی۔
اس سب کے باوجود، کئی افغانوں نے تعلیم میں کامیابی حاصل کی ہے، کبھی کبھار تو انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم حاصل کی۔ دسمبر ۲۰۱۱ میں غزنی سے تعلق رکھنے والے ایک اور باصلاحیت نوجوان ، نے کسی آلے اور خصوصی تربیت کے بغیر ایک جہاز ہوا میں آڑایا تھا۔ یہ جہاز اس نے رکشے کے ٹکڑوں اور اپنے باغ میں موجود پرانی ٹویوٹا گاڑی کے انجن سے بنایا تھا۔
اس مضمون میں الیگزینڈر سودکوف (Alexander Sodiqov) کا تعاون شامل ہے۔