اردن: حقوقِ نسواں کے مظاہرین پر شدید تنقید

۲۵ جون، ۲۰۱۲ء کو ۲۰۰ سے زائد لوگوں نے آمان کی گلیوں میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر حقوقِ نسواں کےمتنازع معاملات کو اجاگر کیا۔ وہ ہاتھوں میں زچ کے خلاف، عزت کے نام پر قتل، شادی کے قانون، اور شہری تعصب کےخلاف بینرز تھامے ہوئے تھے۔

اس مظاہرے میں  مرد، عورت، بزرگ اور جوان سب شامل تھے۔ کئی کے نزدیک یہ ایک کامیاب مظاہرہ تھا، کیونکہ اردن میں عورتوں کے خلاف تعصب کا معاملہ بہت دیر سے کھٹائی میں پڑا ہوا تھا۔ لیکن، بعد از آں، اخباری ویب سائٹ پر لوگوں کی طرف سے آنے والےتجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اردن (کا معاشرہ) ایسے مظاہروں کے لیے تیار نہیں تھا۔

ایسا ہی مظاہرہ[ur] چند ہفتے قبل قاہرہ میں منعقد ہوا تھا۔

مندرجہ ذیل ویڈیو کو Loviniseasy نے بنایا ہے، (اور اس میں عربی اور انگریزی زبان دونوں میں انٹرویو موجود ہیں):

نیچے چند بینرز کی تصاویر ہیں جو مظاہرین تھامے ہوئے تھے۔ (ترجمہ اور تصاویر روبہ الآسی کے بلاگ ‘اور دور تک [And Far Away] سے لی گئی ہیں۔ حقوق اشعاعت محفوظ ہیں – NC-SA 2.0)۔

وہ کیا پہنتی ہے، اس سے آپ کا کیا تعلق؟

تم مجھے عزت کے نام پر مار رہے ہو۔

میں زندگی کی طرح پرعزم ہوں۔

اس مظاہرے پر لوگوں کی طرف سے ملے جلے تاثرات آئے ہیں. کئی ڈرائیوروں نے ان کا مزاق بنایا، ان کو زچ دی یا ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ ایک عام پیغام تھا “اپنے گھر جاو!”۔

جن لوگوں نے اس مظاہرے کے بارے میں سنا یا خود دیکھا تھا، آنے والے دنوں میں اپنی شرمندگی کا اظہارانٹرنٹ پر کیا۔ چند کی رائے تھی کہ یہ مظاہرہ اسلام کی تحقیر کا باعث بنا، جبکہ کچھ کو مظاہرین کے کپڑوں پر اعتراض تھا (کیونکہ عورتیں برقعہ نہیں پہنی ہوئی تھیں)۔

عمون نیوز، ایک مقامی نیوزویب سائٹ، پر لوگوں نے مظاہرین کے بارے میں مندرجہ ذیل تاثرات لکھے ہیں:

تبصرہ نگار “آر” (جون ۲۵):

طالعين مظاهره ضد التحرش
البسوا و استروا حالكم الي بتلبس البنطلون بالكرته يعني…. بتخاف على حالها تسمع كلمه ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
و الشباب الي طالعين معهم حرام فيهم …
الي بتلبس شفاف أو ضيق أو بدي الله لا يردها و بتستاهل
و الحق على أهلها …
آپ ہراساں کرنے کے خلاف مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ کم از کم کپڑے تو پورے پہنیں۔۔ جو لڑکی پتلون پہنی ہے اس کو ڈر ہے کہ اس پر اعتراض ہوگا؟؟ اور جو لڑکے اس کے برابر میں کھڑے ہیں ان کو لڑکیوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے تھا جو اتنے چست کپڑے پہنی ہوں اور پھر ہراساں ہونے کی شکایت کریں۔ یہ ہراساں ہونے ہی کے قابل ہیں اور ان کے خاندان والوں کو ان پر قابو کرنا چاہیے۔

تبصرہ نگار”مستغرب من هالاعتصام” [میں اس مظاہرے پر حیران ہوں] (جون ۲۶):

قلة دين
قلة وعي
روحوا اتفقهوا بدينكم صح
بعدين اطلعوا واعتصموا
امة تركت دينها وركضت وراء شهواتها ضحك عليكم ابليس
والله هذا الاعتصام حجة عليكم والله انكم ظلمتم انفسكم
ناس فارغة وبدها تلفت نظر
امة ضـــــــــــــالــــة
دین کی کمی،
شعور کی کمی،
جاو اپنے مذہب کو پڑھو اور پھر مظاہرہ کرنا۔ جو معاشرہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر لذت کے پیچھے دوڑے، وہ شیطان کے فریب میں آگیا ہے۔ یہ مظاہرہ تمھارے خلاف ہے۔ تم لوگوں نے اپنے ساتھ ہی ناانصافی کی ہے۔ تم لوگوں کا مقصد صرف توجہ حاصل کرنا ہے۔ تم ایک بھٹکی ہوئی نسل ہو۔

تبصرہ نگار “روبہ” (جون ۲۶):

كل يوم بحكي بدي ارجع لبلدي الاردن بس لا والله امريكا اشرفلي اشي بخزي
میں ہر دن سوچتی ہوں کے میں اپنے ملک اردن واپس آجاوں، لیکن پھر مجھے خیال آتا ہے کہ امریکہ میں رہنا میرے لیے زیادہ باعثِ عزت ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے، وہ بہت افسوسناک ہے۔

تبصرہ نگار “مساكين” [مساكين] (جون ۲۷):

الشي الوحيد المخزي هو تعليقات الشباب المكتوبه هون. كأنه عايشين بأيام الجاهليه مش بال-2012. اشي بحزن. كل يوم ..بزيد.
جو چیز افسوناک ہے وہ صرف یہاں پردیے گئے تبصرے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ دورِ جاہلیت (قبل از اسلام) میں زندگی گزار رہے ہوں نہ کے سال ۲۰۱۲ء میں۔ یہ بہت افسوسناک ہے، اور ہر روز اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

تبصرہ نگار “أردني غترب” [اردنی جلا وطن] (جون ۲۵):

هاي الصور من الأردن ؟! والله يا بلد لو انهم جماعة لحى ودين كان منعتوهم يا امن اما هالأمامير لو شوه ما بيقولوا عادي صح ؟
کیا یہ تصاویر اردن کی ہیں؟! اگر یہ احتجاج داڑھی والے حضرات نے کیا ہوتا تو، میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ پولیس ضرور مزاحمت پیدا کرتی۔ مگر ان حسین لوگوں کو اجازت ہے کہ یہ جو چاہے کریں اور جو چاہے بولیں۔

بات چیت شروع کریں

براہ مہربانی، مصنف لاگ ان »

ہدایات

  • تمام تبصرے منتظم کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے. ایک سے زیادہ بار اپنا ترجمہ جمع مت کرائیں ورنہ اسے سپیم تصور کیا جائے گا.
  • دوسروں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں. نفرت انگیز تقریر، جنسی، اور ذاتی حملوں پر مشتمل تبصرے کو منظور نہیں کیا جائے.