اس صفحہ پر تمام بیرونی لنکس انگریزی زبان میں ہیں۔
یہ مضمون ہماری بحرین میں ہونے والے احتجاج (۲۰۱۱) پر خصوصی نشر و تشہیر کا حصہ ہے۔
جب سے عرب دنیا میں انقلاب شروع ہوا ہے، ہم تصویروں میں ہزاروں احتجاجیوں کو چوکوں و گلیوں میں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
ملین مارچ جیسے فکرے ہماری لغت کا حصہ بن گئے ہیں، اور مندرجہ ذیل تصاویر ‘عرب انقلاب’ کا عکس بن گئی ہیں۔
البتہ، کسی چھوٹے مظاہرے کا حصہ بنے کے لیے زیادہ جرأت چائیے، جس میں ایک دوسرے کی کمک کے لیے کم لوگوں ہوں اور میڈیا بھی کم خبریں نشر کررہا ہو۔ تو پھر آپ اس احتجاجی کے بارے میں کیا کہیں گے جو سڑک پر اکیلی احتجاج کررہی ہو؟
مندرجہ بالا تصویر میں ماناما (بحرین کا دارالخلافہ) کے علاقے ‘ فائننشل ہاربر’ کے باہر، زینب الخواجہ ۲۱ اپریل کو دوران احتجاج نظر آرہی ہیں۔ ان کے والد، عبد حادی الخواجہ، انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ہیں جن کو ۹ اپریل ۲۰۱۱ کو جیل بھیج دیا گیا اور پھر ۲ مہینوں کے بعد عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ وہ ۸ فروری، ۲۰۱۲ سے بھوک ہرتال پر ہیں تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والی بدسلوکی کی طرف توجہ مبذول کروا سکیں۔ دنیا بھر کے انٹرنٹ صارفین نے ان کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
زینب جو @angryarabiya کے لقب سے ٹیوئٹر پر لکھتی ہیں، کل سے قفس زنداں میں ہیں۔ ان کی بہن مریم الخواجہ کہتی ہیں کے انھوں نے عوامی استغاثہ سے انکار کردیا ہے۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ یہ زینب الخواجہ کی پہلی گرفتاری نہیں ہے اور نا ہی انھوں نے پہلی دفا اکیلے احتجاج کیا ہے۔
میں حیران ہوں کہ ان کے پاس اتنی ہمت کہا سے آئی۔ میرے خیال میں اس سوال کا بہترین جواب ٹیوئٹر پر موجود ان کی مختصر سوانج حیات سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا۔ وہ لکھتی ہیں:
جب آپ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں، آپ کی عزت نفس ختم ہوگئی ہو، گناہ گار آمروں کے غلام ہوں، پھر پہلا قدم خوف سے خوف نا کھانا ہوتا ہے اور یہ سمجھنا کہ غصہ کرنا آپ کا حق ہے
یہ مضمون ہماری بحرین میں ہونے والے احتجاج (۲۰۱۱) پر خصوصی نشر و تشہیر کا حصہ ہے۔