ثقافت اور معلومات کے سعودی وزارت القاعدہ کے ترجمان عبدالرحمن الھزا کی طرف سے تازہ ترین اعلان نے سوشل میڈیا ویب سائٹس اور بلاگز پر رد عمل کا ایک طوفان پیدا کر دیا ہے۔ اعلان میں یہ بيان کیا گیا ہے کہ تمام سعودی عرب کے ویب پبلشرز اور آن لائن میڈیا، جن میں بلاگز اور فورمز بھی شامل ہیں ، کا سرکاری طور پر حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا ضروری ہو گا۔
دونوں سعودیوں اور غیر سعودیوں نے نئے قانون کی مخالفت کی ہے۔ٹویٹر پر، #ہیشٹیگ ہیزا تھری کے تحت احتجاج کیا گیا — جو وزارت کے اہلکار کے آخری نام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مندرجہ ذیل میں کچھ رد عمل دیئے گئے ہیں۔
اپنے بلاگ، کراس روڈ اریبیا میں جان برگس کنٹرول کے طور پر اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہیں :
ایک وقت تھا، جب ثقافت اور معلومات کے سعودی وزارت القاعدہ یہ کنٹرول کرنے کے قابل تھے کہ لوگوں نے میڈیا کے ذریعے کیا سنا اور کہا۔ بنیادی طور پر یہ تمام انکی ملکیت تھی، اگر لفظی نہیں، تو کنٹرول پر ایک کسے ہوئے ہاتھ کے ذریعے سے۔ نیے میڈیا نے کنٹرول کی اس سطح کو ناممکن بنا دیا ہے ، اتنا ہی کہ جتنا یہ کچھ کو مایُوس کرتا ہے۔
ٹویٹر سے امسس کو اپنے بلاگ پر افسوس ہے :
میرے پیارے بلاگ ، میں تمہاری تعزیت کرتی ہوں. تم لائسنس یافتہ نہیں ہو!
دیگر نے ان تمام مسائل کے بارے میں طعنہ زنی کرنے کا فیصلہ کیا.کابدو کہتا ہے:
میں نے اپنا نیٹ بلاگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ کون سے سرکاری فارمز ہیں جو کہ مجھے بھرنا ہوں گے؟
اور فواد الفرحان کہتے ہیں :
وہ لوگ جو اختیاری طور پر اپنےبلاگز اور معلومات کو رجسٹر کرتے ہیں معلومات کی وزارت کے ساتھ جیسا وہ کہتے ہیں، انہیں اپنے نہانے کے اوقات بھی پانی کی وزارت کو رپورٹ کرنا چاہئے۔
اور عبدالعزیز فاگی نئے قانون کو یہ مشورہ دیتے ہیں:
ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ایک فیوچر پلان جاری کرے۔ کہ غسل خانہ جانے کی اجازت صرف سرکاری اور رائل احکامات حاصل کرنے کے بعد ملے گی
اس کے علاوہ ، اس اعلان نے بہت سے بلاگرز کو پریشان کر دیا ہے۔ اپنے بلاگ سعودی وومن، میں وہ سعودی شہریوں کی آزادی کے بارے میں سوال کرتی ہے۔
کیا ہماری آزادیوں کا خاتمہ کافی نہیں ہو گیا؟ کیامجھے اس بلاگ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے والدین کی طرف سے تحریری اجازت کی ضرورت ہوگی؟
کیا مجھےکام کی طرف سے بھی ایک کاغز کی ضرورت ہے؟ کیا مجھے پوسٹ سے پہلے ہر چیز وزارت سے پوچھنی ہو گی؟ بلاگنگ کے علاوہ کیسا ہو گا، بلاگرز بالکل وہی چیز مسلسل ٹویٹس اور فیس بک نوٹس پر لکھتے ہیں، اب وہ اس بارے میں کیا کریں گے؟ کیا ہمیں اپنے فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس کو بھی رجسٹر کرنا چاہئے؟
اسی طرح سلطان الجمیری، اپنی پریشانی کا اظہار ایک بہت ہی غصیلی بلاگ پوسٹ میں کرتے ہیں:
تاریخ میں کس نقظہ پر وہ ہمیں موڑنا چاہتے ہیں؟ یہاں تک کہ خود کا اظہاراب بہت ہو گیا ہے
رد عمل کے ایک بہت بڑے طوفان کے نتیجے میں، اگلے دن الھزا نے انکار کر دیا کہ فورم مالکان اور بلاگرز سے کسی بھی قسم کی رجسٹریشن درکار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ نئے قوانین صرف الیکٹرانک اخبارات پر لاگو ہونگے وزارت کا دعوی ہے کہ ترجمان القاعدہ ھزا کو غلط سمجھ میں آیا تھا۔
انکار نے حکام پر اپنی افادیت اور نئے میڈیاکو اس پر ردعمل کا موقع دیاہے۔
فواز سعد
نقاط کرتا ہے کہ کس ظرح ٹویٹر اب ایک طاقتور ذریعہ ہے
فوراً بیک آؤٹ! ٹویٹر ڈراونا ہے
جبکہ بعض نے تعجب کیا کہ انکار غیر ملکی پریس کی طرف سے کیوں ہوا؟
سمر الموسی کہتا ہے:
میں حیران تھا انکار اے ایف پی کی طرف سے آیا ، کیا ہمارے پاس مقامی نیوز ایجنسیاں نہیں ہیں؟ یا پھر یہ ایک بین الاقوامی پیغام ہےجس سے ہم شہریوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے؟
آخرکار الفرحان الیکٹرانک اخبار کو ایک نجات کے راستے کا مشورہ دیتا ہے:
اگرمیں ایک الیکٹرانک اخبار کا مالک ہوتا تو میں اجازت نامہ کی درخواست سے بچنے کے لیے اسکا تعرف ایک گروپ بلاگ کے طور پر کرتا۔